کورونا اور ہمارا مستقبل ۔ آخری قسط

پیر 4 مئی 2020

Dr Raja Mohammad Adeeb Khan

ڈاکٹر راجا محمد ادیب خان

قارئین کرام گزشتہ تحریر COVID-19 کے حیاتیاتی جنگ ہونے یا قدرتی آفت ہونے سے متعلق تھی ۔ جس کو آپ لوگوں کی طرف سے کافی پذیرائی ملی ۔ کچھ قارئین نے تمام حقائق کے ساتھ من و عن اتفاق کیا جبکہ کچھ نے چند سوالات اٹھائے ہیں مثلاً چین کا اتنا جلدی بیماری پر قابو پانا، ایک ایسی بیماری جس کو کئی برس پہلے فلم کی صورت میں پیش کیا گیا اور آج اسی بیماری کا بالکل اسی طرح سے ظہور جو اس بیماری کے حیاتیاتی جنگ ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

راقم اپنی تحریروں میں قارئین کے ان تحفظات کے سائنسی تناظر میں جوابات فراہم کرنے کی کوشش کرے گا۔
آج کی تحریر میں ہم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔
کورونا ہماری زندگیوں میں کب تک رہے گا؟ کورونا کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟  ہم اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس کب لوٹیں گے؟
قارئین مندرجہ بالا سوالات کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم مندرجہ ذیل چار کاموں میں سے کوئی ایک ، دو ، تین یا چاروں کر لیں تو ہم کورونا سے نجات حاصل کر کے واپس اپنی معمول کے مطابق زندگیوں میں لوٹ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


۱۔ رویوں میں تبدیلی
۲۔ قوت مدافعت کا پیدا ہونا
۳۔ مؤثر دوا کی دستیابی
۴۔ وائرس کے جینیاتی نظام میں تبدیلی (جینٹک میوٹیشن)
۱۔ رویوں میں تبدیلی:
 کورونا کی وبا کے خاتمے کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی رویوں میں تبدیلی ایک انتہائی کم قیمت اور مؤثر عنصر ثابت ہو سکتی ہے۔ رویوں میں تبدیلی سے مراد ہمیں ایسے مختلف کام جو کرونا کی وبا کے آنے سے پہلے کرتے تھے انہیں اب کرونا کے پھیلاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف انداز میں کرنے کا معمول بنانا پڑے گا۔

رویوں میں تبدیلی کی اہمیت و افادیت اس سے بھی ظاہر ہے کہ پچھلے چند ماہ سے پوری دنیا کے ممالک اپنے شہریوں کے سماجی ، معاشی اور سیاسی رویوں کو تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن ممالک کے شہریوں نے اپنے رویے جتنے جلدی تبدیل کیئے وہ اتنی جلدی اس وبا کو کم کرنے میں کامیاب ہو گے ۔ مثلاً چین جسے جب پتہ چلا کہ کرونا ایک شخص سے دوسرے میں منہ اور ناک کے راستے سے منتقل ہوتا ہے تو انہوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنایشن کے ساتھ مل کر اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گائیڈ لائنز ترتیب دیں۔

جن میں ہاتھوں کو بار بار دھونا یا سینی ٹائزر لگانا تاکہ اگر کورونا وائرس کسی کے ہاتھوں کے ساتھ لگ جائے جہاں سے وہ آسانی سے منہ یا ناک تک پہنچ سکتا ہے اسے فوراً ہاتھ دھو کر یا سینی ٹائزر لگا کر کرونا وائرس کی ساخت کو اتنا متاثر کر دیا جائے کہ اگر وہ سانس کی نالی میں چلا بھی جائے تو بیماری نہ لگا سکے۔ اس کے علاوہ یہ تعین بھی کیا گیا کہ اگر لوگ ایک دوسرے سے کم ازکم دو گز کے فاصلے پر رہیں گے تو وائرس کا ایک کی کھانسی یا چھینک سے ہوا میں شامل ہو کر دوسرے کے منہ یا ناک میں جانے کے چانسز بہت کم ہوں گے اور اگر لوگ فیس ماسک کا استعمال کریں گے تو اس سے بیمار شخص سے وائرس ہوا میں منتقل نہیں ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ زیادہ بھیڑ یا رش والی جگہ پر جانے سے اجتناب سے بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
چین نے جس دن یہ تمام ہدایات جاری کئیں اور اپنے شہریوں کو کچھ دن کے لیے تمام سرگرمیاں مؤخر کر کے گھروں میں علیحدگی (قرنطینہ) اختیار کرنے کو کہا تو تمام شہری بلا عزر گھروں میں بیٹھ گے۔ اگر شہری گھروں میں نہ بیٹھتے تو چین کی گورنمنٹ ان کو گھروں میں مقید  کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

کیونکہ چین دنیا کا تقریباً واحد ملک ہے جس میں گورنمنٹ کی رِٹ تقریباً سو فیصد ہے۔ جب چین کے لوگوں نے اپنی زندگیوں میں تبدیلی کو قبول کیا اور اس تبدیلی کو اپنے رویے تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا یعنی انھوں نے صرف پولیس کو دکھانے کے لیے ماسک نہیں پہنا بلکہ ماسک کو وائرس سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے پہنا۔ صرف شہروں میں چلتے ہوئے فاصلہ اختیار نہ کیا بلکہ گھروں اور کام کی جگہوں پر جہاں کوئی گورنمنٹ کا اہلکار تعینات نہ تھا وہاں بھی سماجی فاصلے کو برقرار رکھا۔

غیر ضروری اور ضروری تمام تقاریب میں جانے سے پرہیز اپنا معمول بنا لیا ۔ گورنمنٹ نے تمام شہروں کو بغیر کسی سیاسی فائدے یا نقصان کی پرواکرتے ہوئے بند کر دیا۔ تمام زمینی و فضائی رابطے منقطع کر دیئے۔ بیمار لوگوں کو ڈاکٹرز کی ٹیموں نے گھروں سے خود ہسپتال منتقل کیا ۔ ہسپتالوں میں تمام ضروری سہولیات اور ٹریننگ فراہم کی جس کے نتیجے میں کرونا کے پھیلاؤ کو روکا گیا اور ہسپتال میں موجود مریضوں کو کھانسی ، بخار ختم کرنے اور مدافعتی نظام کو بہتر بنانے والی ادویات دیتے رہے۔

کچھ ہی وقت میں مریضوں کے اندر بیماری کے لیے قدرتی طور پر قوت مدافعت پیدا ہو گئی، مطلب اینٹی باڈیز بننا شروع ہوئیں۔ جنہوں نے جسم میں موجود وائرس کو پکڑ لیا اور جس سے بیماری آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوئی۔
چین کی اس وبا کے پھیلائو کو کم کرنے کی یہ کامیاب حکمت عملی تھی نہ کہ کوئی پوشیدہ دوا جس کی بدولت چین نے اس وبا پر قابو پالیا ۔

اگر باقی ممالک چین سے کچھ دن ایسے لوگوں کو واپس نہ لے کر جاتے تو یہ وبا عالمی وبا نہ بنتی اور اب تک چین میں ہی دم توڑ چکی ہوتی۔
ہم رویوں میں تبدیلی کو کرونا کنٹرول میں مؤثر ہتھیار کے تناظر میں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک بہت ہی اہم پہلو کو دیکھتے ہیں اگر چین کے لوگ لوگوں سے ملنے سے اجتناب ، ہاتھ ملانے سے اجتناب ، بھیڑ میں جانے سے اجتناب ، ماسک پہننا اور ہاتھوں کو بار بار دھونا، اپنے رویوں کا حصہ نہ بناتے اور ہماری طرح صرف دکھاوے کے لیے ایسا کرتے تو آج جب چین نے تمام شہر کھول دیئے ہیں یہ کورونا کی وباء دوبارہ پھیلنا شروع ہو جاتی ۔

یاد رہے کہ ہم یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ چین کے شہریوں میں سے اب کسی کے اندر وائرس نہیں ہوگا اس لیے اگر ایک شخص میں بھی موجود ہو تو وہ دوبارہ اسی طرح پھیلے گا جیسے شروع میں ایک شخص سے پھیلا تھا۔ تو دیکھتے ہی دیکھتے چین میں اس وبا کی دوسری لہر آسکتی ہے، مگر زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین جیسے ملک میں دوسری لہر آنے کے چانسز بہت کم ہیں جبکہ دنیا کے باقی تقریباً 90فیصد ممالک میں ایسا ہونے کے چانسز تقریباً70فیصد ہوں گے اس کی وجہ سے لوگ اپنے رویے تبدیل نہیں کرتے ، صرف دکھاوے کے لیے کچھ کام کر رہے ہوتے ہیں اور گورنمنٹ کی رِٹ بھی اس سلسلے میں اتنی زیادہ نہیں۔


چین میں نہ صرف عام شہریوں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے رویوں میں خاطر خواہ تبدیلی کر لی ہے ، مثلاً ان کے سیاستدان کرونا سے پوائنٹ سکورننگ نہیں کرتے، پولیس مریضوں سے ملزم والا سلوک نہیں کرتی، کرونا کے مریضوں کو باقی قیدیوں کے ساتھ جہل یا حوالات میں نہیں ڈالا جاتا۔ ڈاکٹرز اپنی حفاظت اور مریض کی دیکھ بھال میں اوجِ کمال کو پہنچ چکے ہیں۔


مندرجہ بالا مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کی روک تھام میں ہمارے سیاسی ، معاشی اور سماجی  رویوں میں تبدیلی ایک بہت اہم عنصر ہے۔ جب تک ہم کرونا سے بچنے کی تمام تر احتیاطی تدابیر کو اپنے رویوں کا حصّہ نہیں بنائیں گے ، ہمارے ملک میں اسی طرح کبھی مریضوں کی تعداد میں کمی اور پھر بڑھنا شروع ہو جائے گی اور ہم اسی طرح اپنی قیمتی جانوں کا نقصان کرتے رہیں گے، ہم اپنے جن پیاروں سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے اجتناب یہ کہہ کر نہیں کر تے کہ کرونا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ دشمن کی سازش ہے یا یہ کہہ کر کہ اب ہم یہ تو نہیں چھوڑ سکتے پھر یقینا ہمیں کرونا اور اس سے ملتی جلتی چھوتی بیماریوں سے بچنے سے کوئی چیز نہیں روک سکے گی اور ہم اپنے انہیں پیاروں کے حقیقی دشمن کہلائیں گے۔

کیونکہ جنہیں ہم سے بیماری لگی ہو سکتا ہے وہ اللہ کو پیارے ہو جائیں۔ یقینا اگر ایسا ہوا تو ہمیں کل روزِ قیامت کو اس کا حساب دنیا پڑے گا۔
دنیا کے تمام ممالک نے کچھ وقت کے لیے لاک ڈاؤن کر کے مختلف طریقوں (سزا اور پیار) سے شہریوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔ جن ممالک کے شہریوں نے اپنے رویے تبدیل کر دیے ہیں یعنی اگر وہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کو اپنی عادت یا معمول بنا چکے ہیں وہاں اب زندگی کی رونقیں بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

اب وہ وائرس کی موجودگی میں بھی اپنی معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمیں بقیہ زندگی انہیں تبدیل رویوں کے ساتھ گزارنا پڑے گی جب تک تمام لوگوں میں اس وائرس کے خلاف ویکسین کے ذریعے یا قدرتی طور پر قوت مدافعت نہ آجائے یا وائرس قدرتی طور پر تبدیل ہو کر اتنا کمزور ہو جائے کہ بیماری لگانے کی صلاحیت کھو جائے۔ دعا اس عمل میں بہت اہم کردار ادا کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :