کورونا اور ہمارا مستقبل

ہفتہ 2 مئی 2020

Dr Raja Mohammad Adeeb Khan

ڈاکٹر راجا محمد ادیب خان

قارئین کرام جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج دنیا ایک عالمی بیماری میں مبتلا ہے۔ جس کا نام COVID-19رکھا گیا ہے۔ اس بیماری کی ابتداء چین کے شہر ووہان سے ہوئی اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق اس بیماری کی وجہ ایک وائرس جس کا نام "کرونا وائرس 19 "بتایا جاتا ہے۔
میری آج کی اس تحریر کا مقصد کرونا کے متعلق معاشرے میں گردش کرنے والے چند سوالات کے اب تک کی تحقیق کے مطابق ممکنہ جوابات دینے کی کوشش کرنا ہے۔

جیسے کیا یہ وبا جدید دور کی حیاتیاتی جنگ ہے یا قدرتی آفت؟، یہ وبا دنیا میں کب تک رہے گی؟کیا اس کا کوئی علاج ممکن ہے؟ہم سب اپنی معمول کی زندگی میں واپس کب جائیں گے؟ اس وبا کی ویکسین کب تیار ہو جائے گی؟ کیا اس وبا کے ساتھ ساتھ کوئی اور وبا آنے والی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

(جاری ہے)


سوال نمبر1: کیا یہ وبا جدید دور کی حیاتیاتی جنگ ہے یا قدرتی آفت؟
جواب: اس وبا کو دور حاضر کی حیاتیاتی جنگ نہ ماننے کے متعلق کچھ عقلی دلائل پیش کرنے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ حیاتیاتی جنگ سے کیا مراد ہے؟
قارئین حیاتیاتی جنگ سے مراد بیماریوں کے جراثیم اپنے دشمن کی آبادی تک پہنچانا تاکہ دشمن بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرجائے، کمزور ہو جائے یا بیماریوں کی روک تھام اور علاج معالجے پر کثیر رقم خرچ کر کے معاشی طور پر کمزور ہو جائے۔

علاوہ ازیں ایسے جراثیم جو دشمن کی فصلوں یا املاک کو نقصان پہنچا سکتے ہوں انہیں بھی حیاتیاتی جنگ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حیاتیاتی جنگ عمومی طور پر وہ ملک شروع کرسکتا ہے جو اس جنگ میں ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے والے جراثیموں کی ساخت جینیاتی نظام ، جیناتی نظام میں ہونے والی تبدیلیاں ، انسانی جسم میں منتقلی ، بیماری کی نوعیت ، بیماری کی روک تھام اور علاج سے متعلق ہر پہلو پرعلمی دسترس رکھتا ہو۔

تاکہ وہ بیماری صرف دشمن پر ہی اثر انداز ہو ، واپس اپنے ملک میں نہ لگ سکے۔
مندرجہ بالا تعریف اور وضاحت کو دیکھا جائے تو انسانی عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے کہ کرونا وائرس ایک بہترین حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ وائرس تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر کسی علاقے میں کوئی ایک شخص بیمار ہو تو دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقہ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

اس بیماری میں مبتلا لوگوں میں سے کچھ لوگوں میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، کچھ معمولی درجے کے بیمار ہوتے ہیں جو گھر میں ہی اگر الگ کمرے میں ٹھہر جائیں اور مناسب خوراک لیں تو ٹھیک ہو جاتے ہیں، کچھ لوگوں کو تیز بخار، سانس میں دشواری جیسے شدیدعلامات کی وجہ سے ہسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے، جہاں ان کو بخار ، کھانسی  اور سانس کی بحالی کی ادویات دی جاتی ہیں۔

جبکہ ہسپتال پہنچنے والے مریضوں میں سے کچھ کو سانس لینے میں دشوری کی وجہ سے شعبہ انتہائی نگہداشت میں مصنوعی سانس یعنی وینٹی لیٹر پر رکھا جاتا ہے اور وینٹی لیٹر پر جا نے کے بعد زندگی میں واپس آنے کے امکانات قدرے کم ہو جاتے ہیں، مندرجہ بالا تمام تر مسائل کا اگر بخور جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کرونا کے مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ہسپتال منتقلی ، ہسپتال میں علاج معالجہ اور اگر فوت ہو جائے تو میت کی تدفین تک ہزاروں لوگ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور ان تمام افراد میں بھی مریضوں سے بیماری منتقل ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

اس لیے ان تمام لوگوں کو حفاظتی لباس دیئے جاتے ہیں جو انتہائی مہنگے ہوتے ہیں۔ اب ان تمام مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی دوا ہو جو مریضوں کو دے کر ٹھیک کیا جا سکے جوکہ ابھی تک موجود نہیں ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ جب ہمیں معلوم ہو کہ کسی ملک میں اس بیماری کے مشتبہ فرد داخل ہو چکا ہے تو فوراً پورا ملک بند کر دیا جائے ۔

تمام لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا جائے، کیونکہ اس بیماری کا جراثیم اگر کسی بندے میں ہو تو وہ چودہ دن کے اندر اندر بیماری کی علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اس لیے چودہ دن تک شروع میں ملک کو بند کر نا ضروری ہوتا ہے۔ اسی اثنا ء میں لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ گھروں میں الگ الگ رہیں اور اگر کسی میں علامات ظاہر ہوں تو وہ محکمہ صحت کے منتخب لوگوں سے رابطہ کرے تاکہ اُسے بحفاظت ہسپتال منتقل کیا جا سکے یا گھر میں علیحدگی اختیار کرائی جائے تاکہ دوسرے لوگ اس سے محفوظ رہیں ۔


مندرجہ بالا تدابیر اختیار کرنے اس بیماری کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر چودہ دن مریض سے کسی اور بندے یا بندوں میں منتقل ہو جانے کا خدشہ ہو جائے تو اس علاقے کو اگلے چودہ دن کے لیے مزید بند کرنا پڑتا ہے۔ اس بیماری کی روک تھام کے لیے جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں مثلاً افراد کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے علاقے یا پورے ملک کو بند کرنا ، اس سے ملک میں زیادہ تر لوگ بے روزگار ہو جاتے ہیں ۔

ٹیکس کی وصولی میں کمی اور برآمدات کی بندش سے ملک معاشی طور پر پستی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ معاشی طور پر پست ملک کو پھر ہر وہ پالیسی ماننا پڑتی ہے جو اس سے بہتر معاشی حالت والے ممالک بناتے ہیں، اس طرح وہ ملک مکمل طور پر غلام بن جاتا ہے ۔
مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کرونا وائرس ایک مضبوط حیاتیاتی جنگی ہتھیار ماننا سمجھ میں آتا ہے  اور اس سے لگنی والی بیماری COVID-19ایک حیاتیاتی جنگ تصور کی جاسکتی ہے، مگر اب ہم آغاز میں لکھی گئی حیاتیاتی جنگ کی وضاحت کے دوسرے حصے کو دیکھتے ہیں۔


جس کے مطابق حیاتیاتی جنگ میں صرف ایسے جراثیم استعمال کیئے جا سکتے ہیں جن کی ساخت، منتقلی ، علاج  اور روک تھام پر مکمل دسترس ہو، اگر ہم اس تناظر میں دنیا میں اس وبا کے پھیلائو اور اس سے ہونے والی تباہ کاریوں کو دیکھیں تو حقیقت یوں عیاں ہوتی ہے کہ ابھی تک دنیا میں موجود کسی بھی ملک کے پاس ایسی دوا موجود نہیں جوا س کو فوراً ٹھیک کر سکے، نہ ہی کوئی ایسی ویکسین موجود ہے کہ جو لوگوں کو دے کر اس بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔


علاوہ ازیں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ اگر کسی ملک کے پاس اس کی دوا یا ویکسین ہوتی بھی تب بھی وہ اس بیماری کو کبھی پھیلانے کی جرأت نہ کرتا، کیونکہ دنیا میں موجود زیادہ تر جراثومے(وائرس) ایسے ہیں جن کی جینیاتی نظام میں قدرتی طورپر تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے اُن کی ساخت اور بیماری لگانے کی صلاحیت تبدیل ہو جاتی ہے اور جب اُن کی ساخت تبدیل ہو جائے تو اس کے خلاف بنائی گئی ویکسین کام نہیں کرتی اور نہ ہی پہلے والی دوا مؤثر رہتی ہے، بعض اوقات ان تبدیلیوں سے جراثیم بیماری لگانے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور بعض اوقات پہلے سے زیادہ سخت بیماری لگانا شروع کر دیتا ہے اور جیناتی نظام کے اندر یہ سب تبدیلیاں قدرتی طور پر ہوتی ہیں جن کو انسان کبھی کنٹرول نہیں کر سکا اور نہ ہی کبھی کر سکے گا۔


مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ایک ایسا ہتھیار جس کو استعمال کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف دشمن کو مارے گا یا اُسے بھی مار دے گا، تو اس کا استعمال کیسے ممکن ہے یا پھر ایسے کہیں کہ ایک ایسی جنگ جس میں لڑنے والے سپاہی (جراثیم)اندھے ہیں وہ نہیں جانتے کہ دشمن کون ہے اور اپنا کون ہے؟ تو ایسے سپاہی کی مدد سے کون جنگ جیت سکتا ہے؟
المختصر ابھی تک معلوم حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کرونا قدرتی آفت ہے نہ کہ ایک حیاتیاتی جنگ جو کسی ملک نے دانستہ شروع کی ہوئی ہے، یہاںپر یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اب جبکہ دنیا مسلسل تحقیق کر رہی ہے جس میں کرونا وائرس اور اسے پھیلنے والی بیماری کے ہر پہلو شامل ہیں ۔

اب کوئی بھی ملک دوسرے کو مس گائیڈ کر کے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکتا ہے جو ایک حیاتیاتی جنگ سے زیادہ خطر ناک ہو سکتے ہیں۔ ان حالات کے اندر تمام ممالک کے حکمرانوں اور ان کے تھینک ٹینک کو بہت چوکنا رہنا ہو گا۔ ہر ملک کو اپنے زمینی حقائق کے مطابق تحقیق کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔ یہ حکمرانوں کی کڑی آزمائش کا وقت ہے۔
 ہمیں اس وبا کو ایک قدرتی آفت سمجھنا چاہیے ۔

یہ آفت ایک بڑی آزمائش یا عذاب ہو سکتی ہے، ہمیں اپنے اعمال پر نظر ڈال کر درستی کی کوشش کرنی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ شاید پوری دنیا توڑ پھوڑ کا شکار ہو چکی تھی ، کچھ ہی وقت میں یہ دنیا انسان کی بقاء کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ اس لیے اللہ پاک نے دنیا کی رفتار کو کم کر کے زمین کی ریپیرنگ کو تیز کر دیا ہے تاکہ یہ زمین زیادہ عرصہ تک انسان کے لیے سازگار ہو جائے، جس کی بہترین مثال اوزون لیئر کا ریپیر ہونا،آبی اور فضائی آلودگی میں کمی اور گلوبل وارمنگ میں کمی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :