تہذیب کی یتیمی

پیر 14 دسمبر 2020

Fatima Latif

فاطمہ لطیف

آج بھی دور جہالت کا دور قائم و دائم ہے بیشتر لوگ آج بھی خواندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کی نگاہوں میں خواندہ وہی افراد ہیں جو تجارتی نام و نشان کے لباس میں ملبوس ہو ،یا ہاتھوں میں تھامے ڈگری نام کا ایک کا غذ لے کر غرور سے سر اٹھا کر کھڑے ہیں مگر ان میں سے کچھ افراد کے رہن سہن پر غور کیا جائے تو ان کی ڈگری ایک کورا کاغذ لگتی ہے جس میں انہوں نے تہذیب نام کی چیز سیکھی ہی نہیں ہوتی ہے مثال کے طور پر عورت کو آج بھی یہ منہ بولے خواندہ ۔

لوگ عزت نہیں دیتے ہیں وہ ماں کی صورت میں ہو چاہے وہ بیٹی کی صورت میں ہو چاہے وہ بہن کی صورت میں ہو
اکثر و بیشتر گھرانوں میں عورت کو آزادی حاصل نہیں ہیں اس کو آج بھی اجازت لینی پڑتی ہے ہر کام میں چاہے وہ اس کی زندگی کیوں نہ بدل سکتا ہوں باپ اور بھائی اپنی بہن اور بیٹی کو بس یہی فرض سمجھتے ہیں کہ اس کو نکاح کے بندھن میں باندھنا ان کی ذمہ داری ہے بلکہ یہ نہیں سوچتے کہ دوسری زندگی شروع کرنا بھی ایک عورت کے لئے اتنا ہی کٹھن ہے ۔

(جاری ہے)

ایک لڑکی کا سوال ہوتا ہے کیا میں تعلیم حاصل کرنے جا سکتی ہو اور نہ کا جواب سن کے ساتھ ہی اس کی زندگی تھم سی جاتی ہے ماں تو اجازت دینے سے قاصر رہی ہوتی ہے اور باپ اور بھائی کا کہنا ہوتا ہے کہ باہر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تفریح تو  تفریح یہاں تک کہ تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی وہاں ایک لڑکی پھر اہ بھر کر بیٹھ جاتی ہے پھر ایک دن آتا ہے کہاں سے دوسری زندگی کا سفر شروع کرنا ہوتا ہے جس میں کہا جاتا ہے اس دہلیز کو پار تو کر رہی ہوں مگر ہمیشہ ماں باپ کی عزت کاخیال رکھنا ہے سسرال کو بھی اپنا گھر سمجھنا ہے دوسروں کے گھر   جاتے ساتھ ہی اس کو وہاں کہ کچھ آداب کا علم ہوتا ہے   اور ان اداب کا نچوڑ یہ ہوتا ہے کہ سب کام وقت پر ہونی چاہیے باقی بیمار ہو سکتے ہیں مگر تم نہیں شوہر کو خواندہ سمجھ کر اپنی بیٹی کا ہاتھ دیا جاتا ہے اس کے گھر آنے پر تاخیری کی وجہ پوچھی جائے تو لڑائی جھگڑے کا سبب بنتا ہے ان کی والدہ محترمہ سے حق کی بات کی جائے تو ان کی بےعزتی ہو جاتی ہے اور دوسرے گھر میں بھی  اس کو اس کو کچھ  یہ ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں ایک لڑکی کی زندگی قید بن جاتی ہے اس کو اپنے گھر میں بھی پابندیاں ملتی ہیں اور سسرال میں بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کو حوصلے میں لے کر اس پر یقین رکھ کر اس کو مخصوص قسم کی آزادی دی جائے تو یہی لڑکی آپ کا سر فخر سے بلند کر سکتی ہے نہ کہ ماحول کے طعنے دے کر چار دیواری میں قید کر لیا جائے کہیں باپ سخت راویہ کرتا ہے کیا بھائی اپنی صدارت کا اظہار کرتا ہے کہی شوہر اپنا روب  روب جمتا آتا ہے ہر بار باپ  بھائی کی حکم پر چلنے والے کی اپنی بھی زندگی ہے عمر کے ساتھ ساتھ یقین اور اعتماد کی ڈور کو ڈھیل دے   ہر قسم کی تعلیم میسر کی جائے نہ کہ سوشل میڈیا پر جنسی تشدد کی خبر سن کر لڑکی کی زندگی کا دائرہ تنگ کردیا جائے بلکہ اسے اچھی بری کی تعلیم اسی آنگن میں دی جائے جس آنگن میں ہر سوال اور ہر خواہش کے جواب میں نہیں کا جواب دیا جاتا ہے جن ذہنوں میں اور گھروں میں لڑکا اور لڑکی میں فرق کیا جاتا ہے وہ ذہن وہ گھر تعلیم یافتہ ہو کر بھی جاہل ہی تسلیم کیے جاتے ہیں جن گھروں میں اونچی آواز سے ڈرا کر اور تشدد کر کہ ان کی آواز دابا لی جاتی ہے ان گھروں میں ڈگری نام کا کاغذ رکھنا بھی فضول ہے یہ ڈگری نما کاغذ جو ایک لڑکے ایک شوہر کو حاصل ہوتا ہے جن کو خواندہ کہا جاتا ہے وہ افراد وہ بھائی وہ شوہر صرف اپنی ذات تک کے لیے ہی خواندہ ہوتے ہیں ایسی پڑھائی سے نا خواندہ ہونا ہی بہتر جہاں عورت کا سانس لینا محال ہو جائے اور وہ آنکھوں میں خواب دبائیں  زندگی سے کوچ کر جائے
خیال آتا ہے تہذیب کی یتیمی پر
خدا عروج نہ بخشے کبھی کم ظرفوں کو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :