چینی زبان کی ترویج،عدم سہولیات اورکوروناوائرس کے باعث طلبا ذہنی ہیجان میں مبتلا

جمعرات 5 مارچ 2020

Fayyaz Mehmood Khan

فیاض محمود خان

سی پیک پاکستان اور چین دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی علامت ہے، چین اور پاکستان ایک دوسرے پر معاشی اور سیاسی طور پر اعتماد کرتے ہیں، عالمی اداروں کے مطابق پاکستان دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے، اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے لئے تاریخی، تجارتی اور اقتصادی اہمیت کا حامل بن چکا ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد ایشیا ایک بار پھر عالمی منظرنامے میں صنعتی، تجارتی اور اقتصادی ترقی کا محور بن کر ابھر رہا ہے، حکومت کی درست معاشی پالیسیوں کی وجہ سے تین سالوں میں گروتھ ریٹ 2 اعشاریہ 5 سے بڑھ کر 4 اعشاریہ 8 تک پہنچ گیا ہے، پاکستان میں صنعت کے فروغ سے پاکستان پیداواری مرکز بن کر ابھرے گا، اس کی برآمد کرنے کی صلاحیت بڑھے گی اور تجارتی خسارے کے خطرات ہمیشہ کے لئے ٹل جائیں گے دنیا کی معیشت ایشیااورچین کے ساتھ جڑی ہے، سی پیک کے ذریعے معاشی اور علمی انقلاب آئے گا،چینی صنعتوں کی پاکستان میں منتقلی سے بے روزگاری کا خاتمہ، مختلف شعبوں میں معلومات کا تبادلہ اور مہارت میں اضافہ ہوگا،صنعتی زونز کے قیام سے مقامی صنعت کاروں کے لئے سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع پیدا ہونگے،چینی صنعتوں کی پاکستان میں منتقلی سے بے روزگاری کا خاتمہ، مختلف شعبوں میں معلومات کا تبادلہ اور مہارت میں اضافہ ہوگا۔

(جاری ہے)

اکیسویں صدی علمی انقلاب کی صدی ہے، آج دنیا کی معیشت ایشیا اور چین کے ساتھ جڑی ہے، سی پیک کے ذریعے معاشی اور علمی انقلاب آئے گا۔حکومت تعلیم اور صنعت کے درمیان روابط قائم کر کے معیاری تحقیق اور پائیدار ترقی کے اصول پر کارفرما ہے۔چار سال قبل پاکستان کوعراق اور افغانستان سے خطرناک ملک قراردیا گیا، کوئی غیرملکی پاکستان میں 1ڈالر سرمایہ کاری پر تیار نہیں تھا، مگر سی پیک منصوبے کے بعد پاکستان میں حالات میں بہتری آئی اور دنیا ہمیں سرمایہ کاری کی بہترین اور محفوظ ترین منزل قرار دے رہی ہے،پاکستان اور چین کے مابین صنعتی تعاون کے نتیجے میں مقامی صنعت کو فروغ اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا، چینی صنعتوں کی پاکستان میں منتقلی سے بے روزگاری کا خاتمہ، مختلف شعبوں میں معلومات کا تبادلہ اور مہارت میں اضافہ ہوگا،صنعتی زونز کے قیام سے مقامی صنعت کاروں کیلئے سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع پیدا ہونگے، پاک چین صنعتی تعاون پاکستان کو خطے میں پیداواری مرکز بنا دیگا۔

صنعت سازی سے پاکستان آئندہ 30 سالوں تک اپنی شرح نمو 8 سے 10 فیصد تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ پاکستان انتہائی سے درمیانے یا انتہائی آمدن والا ملک بن سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس چین کی طرح معاشی ترقی کے بے بہا مواقع موجود ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہدری (سی پیک ) منصوبے کی وجہ سے اردو اور چینی زبانیں سیکھنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

جس کی بنیادی وجہ اس بڑے منصوبے میں ہونے والی ریکارڈ سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانا ہے۔اس منصوبے سے پاکستان میں روزگار کے وسیع مواقع دستیاب ہوں گے۔پاکستان میں چینی زبان بولنے والے پاکستانیوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور بھاری معاوضہ پر ان کی خدمات لی جارہی ہیں اسی طرح چین میں ’’اردو‘‘ زبان بولنے والوں کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔اس کی اہمیت کو مزید اچھے انداز میں پیش کرنے کے لیے حکومت نے ٹیکنیکل ٹریننگ ،ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس میں باقاعدہ تین ماہ کے مختصرکورسز کا آغاز کررکھاہے ،جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں بھی ان کورسز کو کامیابی سے پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں مگر جن مسائل پر ابھی تک توجہ نہیں دی گئی ان میں بنیادی مسلہ ان اساتذہ کی تنخواہ ہے جو اس امید پر چینی زبان سکھانے کی غرض سے معاہدہ کرتے ہیں کہ انہیں اچھی تنخواہ دی جائیگی مگر ایسا نہ ہوسکا ہے ،چینی کورس میں داخلہ لینے والے طلبا کو یہ بتایاجاتاہے کہ کورس کے دوران انہیں ملٹی میڈیا کے ذریعے زبان کو سیکھنے میں مدددینے والے مواد کی بھی سہولت مہیا کی جائیگی مگر ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔

تین ماہ کے اس مختصر کورس کی ابتداء سے اختتام تک طلبا صرف اپنی نوٹ بک تک ہی محدود رکھے جاتے ہیں انہیں کورس سے متعلق کوئی کتاب یا نوٹس کی فراہمی سہانے خواب ہی رہتے ہیں اور امتحان کی تاریخ آنے تک وہ اس پریشانی اور مشکل میں ہی رہتے ہیں کہ انکا کورس کیاہے اور انہیں امتحان کس انداز سے دینا ہے۔کورس کی صرف آئوٹ لائن بتانے سے مقصد قطعاً پورا نہیں ہوسکتا۔

  یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی عدم فراہمی اور پالیسی پر عملدرآمد کے روایتی تاخیری حربے طلبا اور اساتذہ میں بے چینی اور ذہنی ہیجان پیدا کرنے کا باعث ہیں۔ حکومت پنجاب اور خصوصا ٹیوٹا ادارہ کو چاہیے کہ اشتہارات کے ذریعے شائع کی جانے والی سہولیات پر عملدرآمد کو ہرصورت یقینی بنائیں تاکہ طلبا وطالبات  نئے دورکے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہوکر اپنے مستقبل کو روشن کرنے کی امید وں کو پوراکرسکیں۔

اسی طرح اگر اس بات کو بھی یقینی بنالیا جائے کہ چینی زبان سیکھنے کے لیے داخلہ لینے والے طلبا وطالبات کو تین ماہ کے مختصر عرصہ میں  چینی زبان کے ایکسنٹ کو بہتر بنانے کے لیے طویل عرصہ سے پاکستان میں رہنے والے چینی انسٹرکٹر کا ہرپندرہ روزبعد وزٹ کرایاجائے تو جو طلبا تین ماہ میں سیکھتے ہیں وہ انہیں دوماہ میں ہی ازبر ہوجائے گا اور انکے لیے آسانیاں پیداہوجائیں گی۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہے کہ چینی زبان کی ترویج کے پروگرام حالیہ کووڈ 19کورونا وائرس سے قبل کے ہیں مگر وائرس کی اس لہر نے چینی زبان کے کورسز کو بھی اثرانداز کیا ہے اور چینی زبان کے کورس کا نام لیتے ہی وائرس کی شبیہ ذہن میں اتر آتی ہے اور طلبا وطالبات خود کو شرمندہ محسوس کرنے لگے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔وائرس کا تعلق کسی بھی طرح تعلیم و ہنر مندی سے نہیں ،علوم سیکھنا اور سکھانا اپنی جگہ ہے مگر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جانا کہ چین سے وائرس کے اثرات پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں تو چینی زبان بھی نہیں سیکھنی چاہیے قطعاً غلط سوچ ہے۔

لہذا ایسے تمام طلبا وطالبات جو چینی زبان کے کورسز کررہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان کورسز کو جاری رکھیں اور کسی بھی ابہام کا شکار نہ ہوں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :