تین پارٹیاں ۔۔۔۔ تین دکانیں

منگل 2 فروری 2021

Fayyaz Mehmood Khan

فیاض محمود خان

رات کو سونے سے قبل کتابیں پڑھنا اورصبح ناشتے کے دوران نیوز چینل پر خبریں سننے کی عادت مجھے ورثے میں ملی ہے ،کتابیں نہ پڑھیں تو نیند نہیں آتی اور ناشتے کے دوران خبریں نہ سنیں تو ناشتے کا مزہ کرکرا ہوجاتاہے ،آج بھی ناشتہ کرتے ہوئے خبریں سننے میں مگن تھاکہ اسی دوران گلی میں اچانک شورشرابے نے پریشان کردیا۔ سب کچھ وہیں چھوڑا اور بھاگ کر گلی میں پہنچا تو دونوجوان اور ایک بزرگ کو آپس میں شدید بحث وتکرار کرتے پایا ، قریب جاکر معاملہ پوچھاتو معلوم ہواکہ تینوں اپنی اپنی سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرنے میں اس قدر شور مچارہے تھے کہ لڑائی کا گمان ہونے لگا تھا۔

اب آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بحث کرنے والے تینوں افراد کون ہیں تو آپ اس کتھا کو آخر تک پڑھنے پر مجبور ہوجائیں گے، یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ملک میں ہونے والے ہرقسم کے بحران کی بنیادی وجہ ہیں اور انکے کارکنان اپنے اپنے لیڈرز کی ہر اچھی بری حرکت پر اندھا دھند تقلید میں مصروف ہیں۔

(جاری ہے)

برسراقتدار پارٹی کے کارکنان بھلے سیاست کی الف بے سے بھی ناواقف ہوں مگر انہوںنے ہر سیاسی بحث میں اس طرح حصہ لینا ہوتا ہے جیسے ان سے بڑا سیاسی ناقد کہیں نہیں ملے گا حکومت کی ہر ناقص ترین پالیسی کو اس طرح ڈیفنڈ کررہاہوگا جیسے پالیسی بنانے میں اسی شخص کا ہاتھ ہو اور تمام مشورے انہی صاحب نے دیے ہیں حکومت کیا کررہی ہے آئندہ کون کونسے منصوبوں پر عملدرآمد کیاجائیگا، ملک میں بیرون ملک حکومتی ارکان کی پذیرائی ہورہی ہے خارجہ پالیسی کیا ہونی چاہیے داخلہ پالیسی پر سابقہ ادوار میں کس کس وزیر نے کون کونسی غلطیاں کیں اور آج ہم کس حکومتی پارٹی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں یہ سب باتیں آپ اور ہم سب روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی چائے خانے پر،سستے مہنگے ہوٹل پر ،گلی محلوں اور سربازار سن رہے ہوتے ہیں ،اسی طرح اپنی اپنی باریاں لیکر اپوزیشن کا کردار اداکرنے والی پارٹیوں کے کارکنان بھی اسی جوش و خروش سے ہر سیاسی بحث میں حصہ لینا اور تنقید برائے تنقید کرنا اولین فرض سمجھتے ہیں، ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ملک کے ہر گلی محلے، اداروں اور بازاروں میں اس قدر مہان پالیسی میکرز موجود ہیں تو انہیں حکومت سازی میں شامل کیوں نہیں کیاجاتا اور فیصلے لینے والے وزرا اتنی عقل کیوں نہیں رکھتے جتنی سیاسی پارٹیوں کے کارکن سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور اگر ہمارے ملک کا ہرشہری اس قدر سمجھدار ہے تو یہ ملک ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنے کی بجائے تنزلی کی منازل کی جانب کیوں گامزن ہے۔

آپ آج کے اس دور میں بچوں سے بھی بڑی امیدیں وابستہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ موجودہ صدی کی نسل نو گزشتہ صدیوں کا تجربہ لیکر پیدا ہوئی ہے اور بچے بھی اچھی خاصی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ ہماری تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ہم بات کرتے کرتے کسی دوسری جانب نکل پڑے ہیں لہذا ہم اپنی بات کو پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا تو میں بات کررہاتھاکہ گلی میں سیاسی شور شرابے کی تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ گھر کی دیوار سے متصل عمارت کی پہلی دکان برسراقتدار پارٹی کے سرگرم کارکن کی ہے جو اپنی پارٹی اور لیڈر کے خلاف بات سننا گوارہ نہیں کرتا،کیونکہ وہ اس عمارت میں واحد دکاندار تھا اور کافی عرصہ تک اکیلا ہی اپنی بادشاہت کے مزے اڑاتا رہاہے مگر جب اسی عمارت میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے کارکن نے قدم جمائے تو اسکی بہت آئو بھگت کی گئی خوش آمدید کہا گیا ،اپوزیشن پارٹی کے کارکن نے بھی کبھی بحث کی کوشش نہیں کی تھی مگر جناب کہانی کا رخ اس وقت تبدیل ہوا جبکہ اس عمارت میں ایک تیسری جماعت کے بنیادی کارکن نے اپنی دکان شروع کی اور یہ تیسری جماعت تھی پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے نظریات پر چلنے والے کارکن کی۔

لیں جناب اب مسلم لیگ ن کے کارکن کو حوصلہ ملا اور اس نے پیپلز پارٹی کے کارکن کو اپناہم خیال بناتے ہوئے برسراقتدار پی ٹی آئی کے کارکن پرحکومتی ناقص پالیسیوں پر تابڑ توڑ حملے شرو ع کردیے کیونکہ اپوزیشن کی دوجماعتوں کے کارکن اکھٹے ہوچکے تھے لہذا پی ٹی آئی کے کارکن نے بھی ہار ماننے کی بجائے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے دونوں کو جھوٹے سچے حکومتی اقدامات کی فہرست سنانا شروع کی جس پر تینوں پارٹیوں کے یہ کارکنان اپنی بحث و تکرار میں اس قدر دھت ہوچکے تھے کہ انہیں آس پاس ،اڑوس پڑوس کی کوئی خبر نہ رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے گلی میں کافی لوگ جمع ہوگئے جس کے بعد تینوں دکانوں اور تینوں سیاسی پارٹیوں کے کارکنان اپنی آوازوں کو دھیما کرتے چلے گئے اور کچھ دیر میں یہ بحث ختم ہوئی مگر یہ بحث صرف کہانی میں ختم ہوئی ہے عملی طور پر جب بھی تینوں سیاسی دکانیں کھلی ہوں تو بحث اسی زور شور سے جاری دیکھی گئی ہے اور اب انکی یہ بحث وتکرار معمول بن چکی ہے گلی کے لوگوں نے بھی پریشان ہونا چھوڑ دیاہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستانی قوم 74سالوں کے بعد بھی صرف سیاسی شعبدہ بازوں کے درمیان پھنسی رہے گی اور حقیقت سے منہ موڑ کر اپنے قیمتی وقت ، ٹیلنٹ کو ضائع کرتی رہے گی یا پھر اپنے اپنے شعبہ میں رہتے ہوئے ملکی ترقی میں فعال کردار اداکرنے کے لیے سیاستدانوں کو انکے حال پر چھوڑ دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :