کورونا وائرس ، لاک ڈائون اور وہم

اتوار 26 اپریل 2020

Fayyaz Mehmood Khan

فیاض محمود خان

یہ 21مارچ کی شام تھی اور دفتری امور سے فراغت کا وقت ہواچاہتا تھاکہ اسی لمحے اطلاع موصول ہوئی کہ 22مارچ سے 24مارچ تک تین روزہ لاک ڈائون کیا جارہاہے۔ چین میں کوروناوائرس سے ہونے والی ہلاکتوں اور مسائل کے پیش نظر پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک اپنے اپنے ملکوں کو لاک ڈائون کی طرف لے جارہے تھے تاہم پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر کورونا وائرس کو سازش قرار دیاجارہاتھا اور طرح طرح سے وائرس سے مقابلے بارے تضحیک آمیز ویڈیوز،تصاویر، پیغامات جاری کیے جارہے تھے ۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں لاک ڈائون کے باقاعدہ مراسلے جاری ہونے پر کچھ تشویش ہوئی مگر دل کو سہارا دیا کہ ہم مسلمان ہونے کےناتے دیگر تمام مذاہب سے افضل ہیں اور ان شا اللہ ہم اس وائرس سے محفوظ رہیں گے،اپنے تئیں ایس او پیز پر عملدرآمد بھی شروع کردیا اور گھر کو بھی واقعتاً قرنطینہ میں بدل دیا، بچوں کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی عائد کردی اور ازحد ضروری کام کے لیے باہر جانے پرپی پی ایز کا استعمال یقینی بنانا شروع کردیا۔

(جاری ہے)

لاک ڈائون کی ڈیڈ لائن آنے سے قبل ہی توسیع کی خبریں سنتے ہی ماتھا ٹھنکا کہ کاروبارپہلے ہی نہ ہونے کےبرابر تھا اور اب مکمل ہی بند کرکے گھروں میں بند ہونے پر کس طرح گزربسر ہوگی ،انہی سوچوں میں گم آہستہ آہستہ لاک ڈائون بھی بڑھتا گیا اور جمع پونجی بھی خاتمے کی جانب رواں دواں تھی ،کوروناوائرس کی تباہ کاریاں اور جگہ جگہ سے ہلاکتوں کی خبروں نے گزربسر کی ٹیشن کو بھی کہیں دو ر جاپھینکا تھا مگر دل میں ایک خوف بھی جگادیا تھا جس کی وجہ سے ہوا یہ کہ رات کو سوتے وقت اچانک آنکھ کھل جاتی یا چھینک اور کھانسی آتی تو فکر لاحق ہونے لگتی کہ کہیں خدانخواستہ ہم بھی کورونا وائرس کی زد میں تو نہیں آگئے۔

یہ چھینکیں کیوں بار بار آرہی ہیں ،کھانسی کیوں بڑھ رہی ہے ایسے میں جسم پر ٹمپریچر بھی محسوس ہونے لگتا اور پھر گلے میں خراش یا درد سے مزید پریشانی بڑھنے لگتی ،اسی طرح رات آنکھوں میں کٹتی اور دن بھر دیگر پریشانیوں کا سامنا رہتا کبھی کوئی بچہ ضد کرلیتا کہ باہر جاکر چیز خریدنی ہے تو کبھی کوئی بچہ کھیلتے کھیلتے ہی کسی بات پر اس قدر بگڑ جاتا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم خود باہر نکل پڑتے کہ انہیں کچھ دے دلاکر خاموش کرائیں ، اس افراتفری میں کورونا سے بچائو کی تدابیر ،دستانے،ماسک ،سینی ٹائزر سب ہوا ہوجاتے اور بغیر احتیاطی تدابیر دکان پر جاپہنچتے اور بچوں کے لیے کچھ خرید کر گھر پہنچتے تو گھر والے جو اتنے دنوں سے حفاظتی اقدامات کی عادت کو اپنائے ہوئے تھے فوراً باتھ روم کی جانب اشارہ کردیتے کہ پہلے ہاتھ منہ دھوکر آئیں اور پھر کمروں میںداخلے کی اجازت ملتی ۔

اس طرح دن گزرنے لگے ،لاک ڈائون میں نرمی کا فائدہ ہم نے بھی اٹھایا مگر پی پی ایز کو استعمال کرتے ہوئے باہر نکلتے اور کام نمٹا کر واپس پہنچتے مگر اس دوران جب بھی چھینک ،کھانسی یا گلے میں خراش،درد کی شکایت ہوتی تو وائرس کے خوف کا وہم دن بھر اور پھر ساری رات پیچھا نہ چھوڑتا ،کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی کبھی جسم میں بےپناہ درد محسوس ہوتا تو کبھی گلے میں کانٹے چبھنے لگتے جس پر پکا یقین ہونے لگتا کہ لاک ڈائون میںنرمی اور باربار گھر سے باہر جانے پر ہم بھی کچھ کچھ وائرس سے متاثرہورہے ہیں مگر کسی سے ذکر کرنے کی جرات نہ کرتے کہ کہیں انتظامیہ کے کانوں میں خبرپہنچی تو بغیر تصدیق ہی قرنطینہ کردیں گےاور وہاں پر ناجانے کس قسم کے حالات کا سامنا کرناپڑے۔

گرمی کی شدت میں اضافے اور کورونا کی تبارہ کاریوں میں کمی کی خبر سنتے ہی دل کو تسلی بھی دینا شروع کردی کہ اب کورونا کی خیر نہیں پاکستان کے بعض شہروں میں تو اسقدر گرمی پڑتی ہےکہ کورونا خود توبہ کرکے یہاں سے فرار ہوگا۔ ان تمام باتوں اور تسلیوں کے باوجود دل میں کورونا وائرس کا خوف اس قدر زیادہ ہے کہ معمولی سی کھانسی اور چھینک سے پیدا ہونے والا وہم دن کا سکون اور رات کی نیند چھین رہاہے۔

اسی خوف نے مسجدوں سے دور کردیا ہے ،دوستوں،رشتہ داروں ،عزیزوں سے حتیٰ کہ اپنے بچوں سے بھی دور کردیا ہے کہ پتہ نہیں کب کون کورونا کی لپیٹ میں آجائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا کنبہ متاثرہوجائے۔ ایک خوف یہ بھی کہ اگر خدانخواستہ کوئی جھوٹے منہ ہی کہہ دے کہ انہیں کورونا ہے تو وہ کسی کو منہ دکھانےکے قابل نہیں رہیں گے۔ آج اس لاک ڈائون کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ہمیں اسی خوف اور وہم نے ہمیں گھیر رکھاہے ۔

دعا ہے کہ اللہ پاک اپنی خاص رحمت سے امت مسلمہ اور پوری انسانیت کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین  ۔اس لیے سب لوگوں کو چاہیے کہ کسی بھی قسم کی بیماری کا مذاق اڑانے کی بجائے حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اپنے پیاروں ،چاہنے والوںکو محفوظ رکھنے کے لیے حکومتی ،انتظامی پابندیوں پر سختی سے عملدرآمد کرنا چاہیے۔اس لاک ڈائون کے دوران اللہ پاک نے یہ ثابت کردیا ہےکہ ہر چیز پر وہ قادرمطلق ہے جو کو چاہے اپنے گھر میںد اخل ہونے کی اجازت دے اور جس پر چاہے اپنے گھر کے دوروازے بند کردے۔ مگر ہم کم فہم اور کم عقل لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر جان بوجھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیےبیٹھے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :