کلاس رومزاور تربیت‎

جمعہ 30 اپریل 2021

Hira Ajmal

حرا اجمل

بچوں کی تربیت میں والدین کے ساتھ ساتھ استاتزہ کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے. جہاں والدین بچوں کو برے اور اچھے کی پہچان کرواتے تھے وہی اساتزہ بھی پیش پیش ہوتے تھے. نوجوان نسل کی تربیت میں والدین کا بہت اہم کردار ہوتا ہے.
کلاس روم وہ جگہ جہاں ایک استاد پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس نے نہ صرف بچوں کو تعلیمی نصاب پڑھانا ہے بلکہ بچوں کو ادب وآداب بھی سیکھانا ہے.

پہلے بچوں کو تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تربیت بھی کی جاتی تھی. بڑوں سے کیسے پیش آنا ہے چھوٹوں سے کیسے شفقت کرنی ہے. اچھائی اور برائی کا فرق سمجھایا جاتا تھا. لیکن آج یہ سب جب میں سو چتی ہوں تو ایسے لگتا ہے جیسے لوگوں کیلئے یہ تربیت ادب  وآداب صرف مزاق کی باتیں ہیں.

(جاری ہے)


ایک دفعہ کالج میں ہماری کلاس میں ٹیچر نےنصاب سے ہٹ کر بات کی تو ٹیچر نے باقاعدہ sorryکا لفظ استعمال کیا کہ sorry بچوں میں نے نصاب سے ہٹ کر کوئی بات کی ہے.


اگر یونیورسٹیز کے لیول کے کلاس رومز کی بات کی جائے تو اخلاقیات سےگِری ہوئی باتیں کی جاتی ہیں اور اِنہیں اخلاقیات سے گِری ہوئی باتوں پر زور دار قہقے لگائے جاتے ہیں اوراُن قہقوں میں تربیت کہی گم ہو جاتی ہے نہ صرف بچےبلکہ استاتزہ بھی اُن قہقوں میں شامل ہوتے ہیں.
مسلئہ یہ نہیں ہے کہ کلاس رومز میں قہقے لگائے جاتے ہیں. مسلئہ یہ ہے کے کیا کلاس رومز میں بچوں کو چند کتابوں کو رٹا لگوانا اور پیپرز لینا اور پاس ہونا ہی ہے.

کیاکلاس رومز کا یہ مقصد نہیں ہونا چاہئے کہ بچوں کی تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کرنی چاہئے بچوں کو معاشرے میں رہنے کے اصول بتائے جائے یاصرف اس کلاس رومز کا مقصدصرف A for apple اورB for ballسیکھانا ہی ہے.
تعلیمی اداروں کے اندر ہی بچوں کو ایسی ایسی گھٹیا زبان استعمال کرتے سنا ہے میں نے جو کے پڑھے لکھے نو جوانوں (بچوں) کا شیوہ نہیں ہوتا.

پھر میں سوچتی ہوں کہ ان کا کیا قصور ان کو توا, ب اور A, B, cکےعلاوہ کچھ کلاس رومز میں سیکھایا ہی نہیں جاتا کہ کیسے بولنا ہے کیسے تمیز وتہزیب کے ساتھ دوسروں کے ساتھ پیش آنا ہے.
افسوس اگر ہم نے اپنے بچوں اور نوجوانوں کو صرف تعلیمی نصاب پڑھا کر پیپر لے کر اور ہاتھ میں ڈگری کا کاغز ہی پکڑانا ہے تو پھر معاشرے کے بگاڑ میں جتنا قصور اُن نو جوانوں کا ہوگا اتنا اُن کلاس رومز کابھی ہو گا جہاں اُنہیں ا, ب اور A, B, Cتو سیکھا دی لیکن تمیز و تہزیب, اچھائی و برائی میں فرق, معاشرے کا مفید فرد کیسے بننا ہےیہ سب تو سیکھایا ہی نہیں گیا.


آخر پر صرف یہی کہوں گی کہ یا تو آج کے کلاس رومز میں موجود استاتزہ تربیت کرنا ہی نہیں چاہتے یا پھر آج کی نوجوان نسل یہ تربیت, تمیزوتہزیب کو صرف مزاق سمجھتی ہے.
سوسو نصابی کتابیں تو رٹائی جا رہی ہیں
کیاہی ہو اگر تربیت بھی رٹائی جا رہی ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :