”اللہ․․․․․پاکستان“

منگل 6 اپریل 2021

Jabran Zafar

جبران ظفر

وسیم ٹکٹکی با ندھے دیوار پر آ ویزاں قائد اعظم کی تصویر کو دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلتی جا رہی تھی۔اتنے میں ایک ضعیف آدمی نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔دروازہ کھلا تھا ۔وسیم بزرگ کی تعظیم میں کھڑاہوا اور آدمی کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ بوڑھابادامی رنگ کی ایک فائل تھامے کمرے میں داخل ہوا اور وسیم سے مصافحہ کیا۔

دونوں اشخاص آمنے سامنے رکھی کرسیوں پر براجمان ہو گئے ۔بوڑھے آ دمی نے فائل میز پر رکھ دی۔
 وسیم گویا ہوا”باباجی! طبیعت کیسی ہے؟چائے منگواؤ ں ؟“بوڑھے آدمی نے تشکرمیں ہاتھ چھاتی پہ رکھ کر نفی میں سر ہلا دیا۔پھر عمر رسیدہ آدمی نے وسیم سے دریافت کیا”بیٹا !میری پنشن کا کا م کہاں تک پہنچا؟“وسیم نے نظریں فائل پر جھکا لیں اور تھوڑا وقفہ دے کر بولا”کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کا کام بغیر خرچے کے ہو جائے ۔

(جاری ہے)

“بزرگ کے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئیں اور وہ بولا ”بیٹا !اب خرچے کی پرواہ نہیں۔“”چچا ! آپ کا کام جائز ہے۔تھوڑا وقت لگے گا ۔حوصلہ رکھیے۔میری پوری کوشش ہے کہ آ پ کا کام جلد از جلد ہو جائے۔“بابا جی اٹھے ،وسیم سے معانقہ کیا اور رخصت ہو گئے ۔وسیم نے ایک نگاہ فائل پر ڈا لی اور پھر قائد کی تصویر پرنظریں جما لیں ۔اس کو ایسا لگاا کہ جناح اس کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔


دفتر سے فارغ ہو کر وسیم نے بائیک نکالی اور گھر جانے کی تیا ری پکڑی۔بائیک کی حالت قابلِ رحم تھی۔سواری پر بیٹھ کر اس نے پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں پر ایک نگاہ ڈالی۔اس نے ایک گہری سانس لی اور بائیک کو ریس دی۔گھر واپسی پر اس کو بیگم کا فون آیا کہ چھوٹے کی طبیعت خراب ہے۔ڈاکٹر نے دوا تجویز کی ہے اور مرغ کی یخنی پینے کا مشورہ دیا ہے۔
فون رکھ کے وسیم مجوزہ دوا لینے میڈیکل سٹور پہنچا۔

اس نے دکاندار کو دوا بتائی ۔دکاندار نے دوا نکال کے کاؤنٹر پر رکھ دی۔ایک ہزار روپے کا بِل دیکھ کر وسیم کی قوتِ گویائی سلب ہو گئی۔دکاندار معاملہ بھانپ گیا اور وسیم سے مخاطب ہوا”ایک مقامی کمپنی یہی دوا چار سو میں دے رہی ہے۔وہ دِکھا دوں ؟“وسیم دکاندار سے نظر یں نہ ملا سکا۔وسیم کے منہ سے ایک مختصر سی ’ہاں‘نکلی۔ دکاندار نے اس کو شاپر تھما دیااور وہ شرمندگی سے دکان سے رخصت ہوا۔


سٹور سے چند قدم کے فاصلے پر ایک قصائی کی دکان تھی۔وسیم نے بائیک سٹور کے باہر چھوڑ کر قصائی کا رخ کیا ۔قصائی کی دکان کے باہر ایک دو گاہک کھڑے تھے ۔ایک کلو مرغی کی قیمت سن کر وسیم کے اوسان خطا ہو گئے۔قصائی وسیم کا پرانا جاننے والا تھا۔اس نے وسیم سے پوچھا”سالن کے لیے چاہیے؟“وسیم نے نیچی آ واز میں کہا ”تھوڑی سی یخنی بن جائے بس“۔

دکاندار نے وسیم کو تھوڑا انتظا ر کرنے کا اشا رہ کیا۔گاہک اونچی آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی باتیں وسیم کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔”ارے بھائی ،اس حکومت نے ستیاناس کر دیا ہے۔ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔شریف آدمی کہاں جائے؟تنخواہ دارتو پِس گئے ہیں۔سوئی سے جہاز․․․․․ہر شے کے داموں میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا ہے۔

“”استاد! یہ لو“۔ْقصائی کی آواز سے وسیم چونکا۔وسیم نے قصائی کو گوشت کے پیسے دیے اور بائیک کی طرف بڑھا۔گا ہکوں کی باتیں اس کے دماغ میں باز گشت کر رہی تھیں ۔
وسیم گھر پہنچا تو گھر کے باہر اس کا پڑو سی کھڑا اپنی کا ر دھو رہا تھا۔اس نے وسیم کو دیکھتے ہی فقرہ کسا”بھائی اس بائیک کو عجائب گھر میں رکھوا دو اب“۔وسیم اس کو دیکھ کر زبردستی کا مسکرایااور گھر میں داخل ہو گیا ۔

مکا ن کی حالت دگرگوں تھی۔دیواریں بتا تی تھیں کہ رنگ و رو غن کو ایک عرصہ گزر چکا ہے۔چھوٹا سا صحن تھا جس میں ایک بچہ ایک چارپائی پہ بیٹھا کھانس رہا تھا۔فضا میں مچھروں کا راج تھا۔وسیم کی بیگم باورچی خانے سے برآمد ہوئی ۔اس کا چہرہ دیکھ کر گمان ہوتا تھا جیسے مدتوں سے مسکرائی نہ ہو۔
 ”آگئے ہو؟“بیگم نے آ تے ہی سوال داغا ۔لہجے میں آشفتگی نمایا ں تھی۔

وسیم نے سرف”ہم م م․․․․“ پر اکتفا کیا اور سامان بیگم کو پکڑا دیا۔شاپر دیکھ کر وسیم کی بیوی نے بھنے ہوئے لہجے میں بولا ”یہ کیا ہے؟گوشت لانا ہی تھا تو سالن کے لیے بھی لے آتے۔یہ چڑیوں یا بلیوں کو نہیں ڈالنا۔“”پیسے کم پڑ گئے تھے“وسیم نے پانی کے کولر سے پانی بھرتے ہوئے وضا حت دی۔”ہاں!ایمانداری بہترین حکمت عملی کا درس دکانداروں کو بھی دے دینا تھا“۔

بیگم نے طعنہ دیا۔شوہر نے سر پکڑ لیا۔بیگم نے بات بڑھائی”تمہارے ساتھ کے افسرگاڑیوں پر آتے ہیں ۔ان کی بیگمات سونے کے زیورات سے لدی پھدی رہتی ہیں۔دس دس مرلہ کے گھروں میں رہتے ہیں وہ․․․“”بیگم․․“وسیم نے بات کا ٹنے کی کوشش کی۔لیکن بیگم دل کی بھڑاس نکالے جا رہی تھی”یہاں بچہ تڑپ رہا۔تمہارے پاس ڈاکٹر کی دوا کے پیسے ہیں نہ گوشت کے۔

بائیک پر بیٹھتے توشرم آتی مجھے۔لوگ سو سو باتیں کرتے ہیں۔زیور تو درکنار یہا ں تو روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں “بیگم کی آ واز رندھ گئی۔وہ نم آنکھیں لیے کمرے میں چلی گئی۔
 وسیم نے بچے کو دوا دی۔کچھ دیر میں بچے کو سکون آیا اوروہ سو گیا۔وسیم کمرے میں داخل ہوا۔بیوی بستر پر لیٹے سسکیاں بھر رہی تھی۔وہ بستر پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر میں بیگم کی سسکیوں کی آواز بند ہو گئی۔

وسیم بستر پر لیٹے کچھ سوچتا رہا اور پھر محو استراحت ہو گیا۔
کچھ روز کے بعد وسیم دفتر میں بیٹھا قلم کو ہاتھ میں گھما رہا تھا ۔وہ متواتر کچھ سوچے جا رہا تھا۔اتنے میں وہ بزرگ آیا ۔رسمی سلام دعا کے بعد بزرگ نے جھجکتے ہوئے پوچھا ”بیٹا!پنشن کا کچھ ہوا؟“کچھ دیرخاموش رہنے کے بعد وسیم بولا”کچھ خرچہ کرنا پڑے گابا با جی!“۔بزرگ نے ایک آہ بھری اور اپنی جیب سے ہزار روپے کے پانچ نوٹ نکالے اور وسیم کو تھما دیے۔

وسیم نوٹ پکڑ ے ،بالکل گنگ بیٹھا رہا۔وہ نوٹو ں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ آنسو کا ایک قطرہ اس کی آنکھ سے نکلا اور اس کے گال پر سرکتا ہوا اُس کی خاکی قمیض پر جا گرا۔”بزرگوار!آپ کا کا م بغیر پیسوں کے ہو جائے گا “۔یہ کہ کر اس نے رقم ضعیف آ دمی کو لوٹا دی۔بوڑھا دعائیں دیتادفتر سے رخصت ہو گیا۔وسیم نے آنکھوں کیسے آنسو صاف کیے اور دیوار پرلگی قائد کی تصویر کو دیکھا۔اس نے محسوس کیا کہ وہ مسکرا رہے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :