دوڑ

بدھ 1 دسمبر 2021

Jabran Zafar

جبران ظفر

”چالیس․․․اکیالیس․․․بیالیس․․․“گوشی نامی خرگوش ڈنڑ پیلتے ہو ئے بولتا جا رہا تھا ۔”بس کر دیں منے کے ابا “۔گوشی کی بیوی گھرکی چوکھٹ پر لگے پردے کے پیچھے سے چلائی۔گوشی اٹھا ،بدن جھا ڑا اور گھر کے دروازے کی طرف بڑھا ۔ وہ معمول کے مطا بق گھر کے سامنے والے میدان میں ورزش کر رہا تھا ۔ پردے کے پیچھے سے ایک با زو برآ مد ہوا جس میں دیسی گھی کا ڈبہ تھا ۔

گوشی نے ڈبہ تھاما اور واپس مڑ گیا۔اُس کی بیگم کی آواز اس کے کان میں پڑی۔”ایک دو دن تک وا پس آجانا۔دیر مت کرنا“۔”ہماری نسلوں کی عزت داؤ پر لگی ہے اور اسے دیر سویر کی سوجھ رہی“۔خرگوش بڑ بڑاتے ہو ئے ریلوے سٹیشن کی طرف جا رہا تھا۔وہ اپنے پرانے دشمن ’کُمّے‘ کچھوے سے اپنی ہا ری ہوئی دوڑ کا بدلہ لینے جا رہا تھا۔

(جاری ہے)


گوشی ،کمے سے دوڑ ہارنے کے بعد ایک دور دراز کے گاؤ ں میں گوشہ نشین ہو گیا تھا۔

اس پہ بدلے کی دھن سوارتھی۔ما ت کے بعد جو ذلت و رسوائی اس کا مقدر ٹھہری تھی ،وہ اس کا قلع قمع کرنا چاہتا تھا۔مگر ایک اچھے مہما ن کی طرح و ہ اپنے میزبان کے گھر خا لی ہاتھ نہ جانا چاہتا تھا ۔اس لیے اس نے ایک دیسی گھی کا ڈبہ ہمراہ رکھ لیا۔اُس کے ناقس علم کے مطابق، کما لاہور ماڈل ٹاؤ ن میں رہائش پذیر تھا ۔گوشی دوڑ میں شکست کے بعد دنیا و مافیہا سے بے خبرتندہی سے اِس دوڑ کی تیاری میں مگن رہا تھا۔

شہر لاہور پہنچنے تک و ہ مستقبل قریب میں ہونے والے ٹاکرے کے متعلق سو چتا رہا۔
سٹیشن اتر کر گوشی شہر کی ترقی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔فلک بوس عما رتیں ․․․․․موٹر کا ریں ․․․․․موبائل فون․․․غرض اُس کا وہی حا ل تھا جیسے کسی پتھر کے زما نے کے آد م کا ،مو جودہ زمانے میں آکر ہوسکتا ہے ۔گوشی خرگوش گھی کا ڈبہ پکڑے راہ چلتوں سے پوچھتے پچھاتے کچھوے کے گھر کی طرف رواں دواں تھا ۔


ایک جگہ سے گز رتے ہوئے اس نے لوگو ں کی بھیڑ دیکھی ۔کچھ لوگ بھیڑ کے ارد گرد کیمرے اور مائک لیے کھڑے تھے ۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آ ٹا مہنگاہونے والا ہے۔خرگوش نے مارے تجسس کے ایک آدمی سے مائک اور کیمرے کی شرف اشا رہ کر کے پوچھا ”بھائی ! یہ کیا ہے؟“”مائک اور کیمرہ ہے “۔آدمی نے خشک لہجے میں جواب دیا ۔”ہمم ․․․․․“گوشی کے منہ سے نکلا۔

اس نے مزید دریا فت کیا ”ان چیزوں کا کیا فائدہ ہے؟ کیا یہ قیمتی چیزیں ہیں ؟“آدمی نے جواب دیا ”بھئی یہ بیش بہا آلا ت ہیں ۔لاکھوں کی لاگت ہے ان کی۔غریب عوام کی آواز دنیا تک پہنچاتے ہیں یہ“۔گوشی سوچ میں پڑ گیا ۔اور اپنی الجھن مٹا نے کے لیے ایک اور سوال کیا ”کیا ان کو بیچ کر غریبوں کے لیے سال بھر کا آٹا نہیں آسکتا؟“۔مخاطَب نے غضبنا ک لہجے میں خرگوش کو راستہ ناپنے کا کہا۔

معصوم گوشی پھر سے سڑکیں ناپنے لگا ۔
بلا کی گرمی تھی ۔پسینے کے قطرے گو شی کی پیشانی پر رقص کر رہے تھے۔ اُ س کا سر چکرا رہا تھا۔راستے میں ایک گٹر کا ڈھکن کھلا تھا ۔گوشی اس میں گر پڑا اور ایک دلخراش چیخ اس کے منہ سے بلند ہوئی۔راہ گیر گوشی کی مدد کو لپکے ۔”یہا ں کوئی ڈھکن کیوں نہیں ؟“گوشی درد کے مارے چلایا ۔”بھیا آج کونسلر صاحب اس ڈھکن کا افتتا ح کریں گے“۔

قریب کھڑے ایک بچے نے کہا۔”کیا تب تک اِس میں کوئی گر نہیں سکتا؟اگر گرا تو کون ذ مہ دار ہوگا؟“جواب ندارد۔گوشی بڑبڑاتے ہوئے اپنے راستے چل دیا۔
خدا خدا کر کے گوشی ،کمے کے گھر پہنچا ۔گھر کے ارد گر د ایک با ڑ تھی جس کے آر پا ر دیکھا جا سکتا تھا۔گھر کیا ،محل تھا گویا۔کشادہ دالان․․․․ایلومینم کی کھڑکیاں ․․․کیا ہی کہنے۔گھر شاید ہسپانوی طرزِ تعمیر کا تھا۔

گھر کے گیٹ کے اوپر سے جھانک کر سیاہ مرسیڈیز باآسانی نظر آ سکتی تھی۔گوشی نے گھر کی گھنٹی بجائی ۔ایک ننھا کچھوا برآمد ہوا۔خرگوش نے اپنا تعا رف کرا یا ۔ ننھا کچھوا گوشی کو اپنے ہمراہ مہما ن خانے میں لے گیا۔گوشی نے ڈبہ اس کے سپرد کیا اور تھک ہا ر کر ایک کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔دیوار پر کمے اور کئی نامور شخصیا ت کی تصاویر آویزاں تھیں۔کئی کمپنیوں کی طرف سے دی گئی ٹرافیاں شیلف کی زینت
بنی ہوئی تھیں۔

شاید دوڑ جیتنے کے بعد یہ کمے کو سپانسر کر رہی تھیں۔
گوشی خرگوش ابھی یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ کھانسی کی آ واز نے اس کو متوجہ کیا ۔دروازے پر کھڑے کمے کی مسکان گوشی کا استقبا ل کر رہی تھی۔کما کافی ضعیف معلوم ہو رہا تھا ۔وہ ایک عدد توند کا مالک تھا جو کسی صورت بھلی معلوم نہ ہورہی تھی۔آنکھوں پر نظر کا چشمہ تھا۔کمے نے کانپتے ہا تھ کو چھاتی پر رکھ کر گوشی کو خو ش آمدید کہا ۔

گوشی نے خشونت کے ساتھ سر کو تھوڑا جھکا یا اورکما کرسی پر براجمان ہو گیا ۔
گوشی کو سمجھ نہ آ رہی تھی کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔اس نے بات کرنے کے لیے منہ کھولا ہی تھاکہ کمے نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔کمے نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ جیب سے انہیلر (inhaler)نکا لا اور ایک پف بھر کر جیب میں ڈال لیا۔”دراصل ہمارے خا ندان میں دمے کا مسئلہ موروثی ہے۔

“کمے نے گوشی کے متوقع سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔کچھ دیر کے لیے سناٹا چھا گیا ۔
بالآخر گوشی نے اس سکوت کو توڑا ”میں اپنی ہا ر کا بدلہ لینا چاہتا ہوں ۔تم سے ہارنے کے بعد میں کہیں اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔نصابی کتب تک میں میری شکست کا قصہ پڑھایا جاتا ہے۔ہمارے خاندان کی ناک کٹ گئی ہے۔اسکی تلافی کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم بر گد کے درخت تک دوڑ دوبارہ لگائیں“۔

”مگر․․․․“کچھوے نے بولنا چاہا مگر گوشی اس کی بات کاٹ کر بولا”اگر مگر کچھ نہیں۔یہ دوڑ ہر حال میں ہو گی اور برگد تک پہنچنے والا پہلا شخص فاتح ٹھہرے گا۔“کما کچھ لمحے کے لیے خا موش ہوا اور پھر مسکرا کر بولا ”مجھے منظور ہے۔لیکن․․․․․“کمے نے بات جاری رکھی”آج رات میرے مہما ن بن کے رہو“۔گوشی نے کمے کا مہمان بننا قبول کیا۔
اگلی صبح کما اور گو شی دوڑ کے لیے جائے مقرہ پر پہنچے ۔

گوشی نے دیکھا کہ اس جگہ انسانوں کا ازدہا م تھا ۔وہ لوگ کمے کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے۔گوشی نے سوالیہ نظروں سے کمے کو دیکھا ۔”دراصل میں نے انسٹا گرا م سٹوری ڈالی تھی۔“کمے نے وضاحت کی۔
دوڑ کا آغاز ہوا۔تالیوں کی گونج میں گو شی خرگوش پلک جھپکتے ہی کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔کما اس سے کوسوں دور تھا۔کچھ مسا فت طے کرنے کے بعد راستے میں ایک خندق کھدی ہوئی تھی۔

گوشی اس میں گرتے گرتے بچھا ۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ حالیہ بارشوں میں سڑک کی حالت نا گفتہ بہ ہو گئی تھی۔ٹھیکیدار نے مصالحہ گھٹیا معیا ر کا ڈالا تھا۔آگے جانے کا راستہ بند تھا۔گوشی کی پریشانی بڑھ ہی رہی تھی کہ ایک موٹر بائیک اس کے پاس آ کر رکی۔پیچھے بیٹھی سواری نے ہیلمٹ اتارا ۔وہ کوئی اور نہیں بلکہ کما تھا۔”با ت برگد تک پہنچنے کی ہوئی ہے ۔

یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ پہنچنا کیسے ہے“۔کمے نے اپنی صفائی پیش کی۔”آؤ ایک چوری رستے سے تمہیں خندق کے اس پا ر پہنچا دوں ۔گوگل کے نقشے بھی غضب ہیں خدا کی قسم۔“حیرت میں ڈوبا گوشی کچھوے کے پیچھے بائیک پر بیٹھ گیا۔بائیک نے رفتارپکڑنا شروع کی۔
کمے نے جیب سے ایک گولی نکالی اور زبا ن کے نیچے رکھ لی اور بولا ”دل کا مسئلہ رہتا ہے مجھے۔

ڈاکٹر نے مشقت والے کام سے منع کیا ہے۔“خرگوش خاموش رہا۔وہ کمے سے نظرنہ ملا پا رہا تھا۔کمے نے بات جاری رکھی”سڑکوں کا کوئی پرسا نِ حال نہیں آج کل۔ان ٹھیکیداروں کو خدا پوچھے “۔
”ہمم ․․․جو بھی ہو ،دوڑجاری رہے گی۔میں تمہاری رام کہانیوں میں آنے والا نہیں۔“خرگوش نے ترش روی سے کہا۔کمے نے سڑک کی طرف اشارہ کیا اور کہا”شوق سے۔یہاں سے تم ٹریک پر دوبارہ چڑھ جاؤ گے“۔

خرگوش نے یہ سنتے ہی بائیک سے چھلانگ لگائی اور یہ جا وہ جا۔
ٹریک پر آگے سڑک بند تھی۔گوشی ایک مرتبہ پھر بے چین ہو گیا۔معلوم ہوا وکلاء نے دھرنا دے رکھا ہے۔کوئی سواری آگے نہ جا سکتی تھی۔یک دم ٹریفک کی بھیڑ سے کما برآمد ہوا۔گوشی اس کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔”دراصل میں جنگلہ بس سے آیا ہوں۔وہ عام سڑک سے ذرا ہٹ کے ہے۔“کمے کی وضاحت سے گوشی کو تسلی ہوئی۔

سورج پوری تما زت سے چمک رہا تھا۔دونوں جانور پسینے سے شرابور تھے۔کمے نے گوشی کو صندل کا شربت پینے کی پیشکش کی۔گو شی نے نیم راضی ہو کر دعو ت قبول کی۔دکاندار نے دونوں کو گلاس تھما دیے۔کمے نے اپنا گلاس گوشی کو پکڑایااور بولا”ایک منٹ“۔یہ کہہ
کر کمے نے اپنی جیب سے ایک ٹیکہ نکالا اور اپنے پیٹ میں لگالیااور ساتھ ساتھ گوشی کو بتاتا رہا”اصل میں بڑھا پے میں شوگر نے آن گھیرا ہے۔

انسولین کے بغیر میٹھا کھانے کی مما نعت ہے“۔خرگوش گوشی آنکھیں پھا ڑے کمے کو تکتارہا۔دونوں نے شربت ختم کر کے خدا کا شکر ادا کیا۔کمے نے گوشی کو جنگلہ بس کے ذریعے ٹریک پر دوبارہ چڑھا دیا۔
خرگوش طرارے بھرتااپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ ا ب تک بر گد کا درخت آجانا چاہیے تھا۔یہ راستہ تو وہ بھولنے سے رہا۔

مگر برگد تو درکنار،کسی کیکر تک کا نام و نشان نہ تھا۔گوشی کی سراسیمگی نے طول پکڑا تو اس نے راہ گیروں سے برگد کے درخت کا پتہ کیا۔سب نے لا علمی کا اظہا ر کیا۔گوشی اسی شش وپنج میں مبتلا تھا کہ ایک گاڑی آکر اس کے پاس رکی۔ا س میں سے کما برآمد ہوا۔اور نکلتے ہی اپنی صفائی پیش کی”رِنگ روڈ سے آیا ہوں ۔گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو جاتا ہے“۔

گوشی نے سر پیٹ لیا۔”کہاں ہے برگد کا درخت؟“گوشی نے چلا تے ہوئے پوچھا۔”یہاں انسانوں کی بستیاںآ باد ہو گئی ہیں۔زمین کو برابر کر دیا گیا ہے۔یہاں پر نئی سوسائٹی بنائی جائے گی“۔کمے نے پرسکون ہو کر کہا۔گوشی کی آنکھوں سے انگارے برس رہے تھے۔کمے نے گوشی کو قریبی کھوکھے پر چائے پینے کی دعوت دی۔مرتا کیا نہ کرتا،گوشی اس کے ساتھ ہو لیا۔
کھوکھے کے سامنے رکھی چارپائیوں پر دونوں نیم دراز ہو گئے۔

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد گوشی بول اٹھا”آخر یہ دوڑ کون جیتا؟“کچھوے نے آنکھیں موند ے جواب دیا”ہر ایک کا اپنا نظریہ ہے“۔”کیامطلب؟“گوشی نے جھلا کر پوچھا۔کمے کے منہ پر ایک مسکراہٹ پھیلی اور وہ گویا ہوا”تمہارے پاس صحت ہے۔تمہیں میری طرح بیسیوں دوائیں نہیں کھانا پڑتیں۔تم میرے سے زیا دہ ہشاش بشاش رہتے ہو۔دوسری طرف میں ہوں جو نفسیا تی طور پر مضبوط ہوں۔

تم رفتار کی وجہ سے نہیں ہارے تھے ۔تم نے غرور کیا۔محنت کرنا چھوڑ دی ۔تم چاہتے تو میر ے خلاف کوئی ریکارڈ بنا سکتے تھے مگر تم نے سونے کو ترجیح دی ۔تم کل بھی مجھ سے رفتار میں تیز تھے۔آج بھی ہو۔کون بہتر ہے ۔کون کمتر ۔اِ س کا کوئی میزان نہیں۔میری دانست میں بہتر وہی ہے جو اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں میں قناعت کا رویہ اختیار کرتا ہے۔دنیا میں زیادہ کی حد نہیں ۔

فن تو یہ ہے کہ تھوڑے میں کیسے خوش رہا جائے“۔
گوشی سر تھامے کمے کی گفتگوسنتا رہا۔کمے نے سوال کیا ”چائے منگواؤں ؟“گوشی نے اثبات میں سر ہلایا۔کمے نے چائے منگوائی۔گوشی کچھ دیر سوچ میں غرق رہا ۔پھر اس کے منہ پر ایک شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی ۔وہ کچھوے سے مخاطب ہوا”تم تو چینی والی چائے بھی نہیں پی سکتے“۔”تم نہیں سدھرو گے“کمے نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :