حسین بس حسین ہے !!!

بدھ 2 دسمبر 2020

Kanwal Fida Abbasi

کنول فدا عباسی

وارثِ انبیاء نور نظر محمد مصطفیٰ(ص) فرزندِ زہرا(رضی اللہ عنہ) و علی(رضی اللہ عنہ) مولا امام حسین(رضی اللہ عنہ) جب بھی ذکر کا موضوع بنتے ہیں واقعہِ کربلا ذہن کے صفحے پر نمایاں ہو جاتا ہے ۔ ساتھ ہی حق و باطل، کافر و مشرک کا فرق واضح کرتے ہوئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کے عظیم ہے تو حسین(رضی اللہ عنہ)۔ میرے مولا اس خاندانِ شاہی سے ہیں جو اس دنیا کے تخلیق ہونے سے بھی بہت پہلے ہر شے سے زیادہ افضل تھے اور ابدی زندگی میں بھی سب سے اعلیٰ اور افضل رہیں گے ۔


تا قیامت فرزندِ زہراء(رضی اللہ عنہ) کی عظیم قربانی ایک روشنی کی طرح ہدایت کا زریعہ بنتی نظر آتی ہے اور بیشک اپنے نانا (ص) کے اس فرمان کا آئینہ دار ہیں کے
بے شک حسین چراغِ ہدایت اور کشتیِ نجات ہیں
جس نے بھی زندگی میں حسین(رضی اللہ عنہ) کا دامن تھاما وہ زندگی کے ہر پہلو میں حر بن کر کامیاب ہوا۔

(جاری ہے)

اس لیے کے امام(رضی اللہ عنہ) کو زوال نہیں اور آج کے یزید کا مقابلا صرف کردارِ حسین(رضی اللہ عنہ) ہی کر سکتا ہے ۔

حق و باطل ہمیشہ ساتھ ہی رہے ہیں مگر یہ انسان کا کردار بتاتا ہے کے اسکو حسینی ہونا ہے یا پھر یزیدی۔
داستان حسین(رضی اللہ عنہ) کی سمجھ میں آگئی اگر
تو حر کی راہ گزار پر کرے گا عشق کا سفر
امام حسین(رضی اللہ عنہ) نبی(ص) کے نواسے تھے مگر اس دنیا نے دنیاوی عیش و عشرت اور دکھاوے کی لالچ میں آکر نبی(ص) کے نواسے کے خلاف تلوار اٹھا۔

اس حسین(رضی اللہ عنہ) کے خلاف جن کو ربِ دو عالم نے جنت کا سردار بنایا۔ حسین(رضی اللہ عنہ) جب اپنی لاڈلی بہنوں کے ہمراہ اپنا قنبہ لے کر روانہ ہوئے تو مدینے کی ہر آنکھ اشک بار تھی سب جانتے تھے کے حسین(رضی اللہ عنہ) اب کبھی واپس نہیں آیں گے مگر کو بھی باطل کے خلاف آواز اٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹا۔
قنبہِ حسین(رضی اللہ عنہ) کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ تو شاید میں کبھی بیان نا کر سکوں۔

اور کروں بھی تو کیسے میرا دل یہ سوچتے ہی کانپ اٹھتا ہے کہ کیسے لعنتی یزیدیوں نے میرے مولا حسن(رضی اللہ عنہ) کے چاند شہزادے قاسم(رضی اللہ عنہ) کے بدن کے ٹکڑے کر کے آپ کے لاشے کو پامال کیا۔ میں یہ کیسے بتاں کے کس طرح علی(رضی اللہ عنہ) کی لاڈلی زینب(س) کے اون و محمد کو شہید کیا گیا, میرا دل اتنا مظبوط کیسے ہو کے میں بتا سکوں کے 6 ماہ کے علی اصغر(رضی اللہ عنہ) کو کیسے برچھی ماری گ کیسے علی اکبر(رضی اللہ عنہ) کو تیروں کا نشانہ بنایا گیا۔

میرا دل یہ بتاتے رک نہ جائے کے کیسے میرے مولا سخی عباس(رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا اور میرے غریب حسین(رضی اللہ عنہ) کو تنہا مقتل میں کیسے بار بار گردن پر چھری پھیر کر شہید کیا اور پھر لاشے کو لوٹا گیا۔ وہ پاک بیبیاں جنہوں نے سارے عالم کو پردہ سیکھایا انہی کو سرِبازار تماچے مارے گئے اور سر سے چادر چھینی گئی۔
ان سب مظالم اور زیادتیوں کا علم میرے حسین(رضی اللہ عنہ) کو تھا مگر میں قربان میرے مولا رب کی رضاء کو لبیک کہ کر آلِ نبی(ص) دین کی خاطر قربان کر گئے تاکہ نانا کی امت کو حق کا درس ملے ۔

رب کر مرضی میں راضی ہونے کا ہی نتیجہ ہے کے ذکرِ امام(رضی اللہ عنہ) آج بھی بلند ہے اور یزید کا نام بھی نہیں۔
قدم قدم حسین(رضی اللہ عنہ) ہے ، نشاں نشاں حسین(رضی اللہ عنہ) ہے
دلوں میں اہل بیت کے رواں دواں حسین(رضی اللہ عنہ) ہے
زمانہ پوچھتا ہے یہ کہاں کہاں حسین(رضی اللہ عنہ) ہے
سلام یا حسین(رضی اللہ عنہ)، سلام یا حسین(رضی اللہ عنہ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :