
مفتی منیب الرحمن کا قصور
پیر 12 اکتوبر 2020

کوثر عباس
(جاری ہے)
لیکن قومی سطح کی ذمہ داریوں کے حامل یہ علماء بھی صلح کے راستے پر چلتے رہتے ہیں ۔صورتحال اس وقت بہت نازک ہو جاتی ہے جب یہ علماء قومی سطح پر ایک وسیع مسلک یا طبقے کی نمائندگی کرتے ہوں ۔ ایسی صورت میں ان کی ذرا سی بے احتیاطی ملک و قوم کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک سکتی ہے ۔اسی حساسیت کے پیش نظر یہ لوگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی بجائے ملک اور ملت کے مفاد کا سوچ رہے ہوتے ہیں ۔مفتی منیب الرحمن کا شمار انہی علماء میں ہوتا ہے جن کی پاکستان کے تمام مسالک کے مقتدر اور معتبر علماء کے ہاں عزت مسلمہ ہے ۔ایسے علماء ملک و قوم کے لیے غنیمت ہوتے ہیں جس کی مثال امسال محرم میں سامنے آئی جب چند شرپسند عباصر کی وجہ سے ملک میں سنی شیعہ فسادات کی آگ سب کچھ بس بھسم کرنے ہی والی تھی کہ دونوں اطراف کے ممتاز علماء سامنے آئے اور ملک دشمن قوتوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ۔آگ تو بجھ گئی لیکن انعلماء کو اپنوں اور بیگانوں کے طرف سے طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا۔مفتی منیب الرحمان کو بھی اسی نفرت کا نشانہ بنایا گیا ۔مختلف ویڈیوز اور پوسٹوں کاتواتر سے جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ ان کی مخالفت دو طرح کے لوگ کررہے ہیں،مسلکی مفاد پرست جاہل ٹولہ اور تسہل پسندی کا شکار بیروم ملک مقیم پیری مریدی کا دھندہ کرنے والے لوگ ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کا کام ہی ”Devide and Rule“ کے تحت چلتا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح کے لوگ تمام مسالک میں گھس گئے ہیں جن سے اس وقت بھی ملکی وحدت کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔لہذا حکومتی ایجنسیوں کو پانی سر سے گزرنے سے پہلے اس کا سد باب کرناچاہیے ۔اگر ایک طرف پڑھے لکھے عوام اس طرح کے تکفیری پیروں اور مولویوں سے دور رہنے لگے ہیں تودوسری طرف ان تکفیری پیروں اور مولویوں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے جس کا نشانہ سادہ لوح مرید اور شاگرد بن رہے ہیں ۔مرید اور شاگرد اگر عقیدتمند ہوں اور جاہل بھی ہوں تو وہ بارود کی مانند ہوتے ہیں جن سے ملکی خرمن کو ہمہ وقت خطرہ رہتا ہے۔مفتی منیب الرحمن کے خلاف چلنے والی حالیہ مہم میں یہ پہلو زیادہ اجاگر رہا ہے کیونکہ ان کے ہم مسلک بعض پیر اور مولوی چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو وحدت کی بجائے انتشار اور مسلکی خدمت کے لیے وقف کر یں ۔
ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ اگرمفتی منیب الرحمان جیسے لوگوں کو وحدت کا پیغام عام کرنے دیں ۔ اس سے نہ تو کسی کی کرامات رک سکتی ہیں ، نہ کسی کے چندے میں کمی آئے گی ، نہ کسی کی دس بوسی کو زوال آئے گا اور نہ ہی کسی پر پھول برسانے کا سلسلہ بند ہو گا۔ لہذا ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں بلکہ ان کے دست و بازو مضبوط کریں کیونکہ یہ ملک ہے تو ہمارے” کاروبار“ سلامت ہیں ورنہ جب بانس ہی نہ ہو گا تو نہ تو بانسری ہو گی اور نہ اسے بجانے والے اندھے عقیدت مند۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.