اسامی خالی ہیں !

ہفتہ 12 فروری 2022

Kausar Abbas

کوثر عباس

نوٹ : کالم سے پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو کا بیڑا غرق کرنے میں بڑا کردار ” فی منٹ کمپوزنگ سپیڈ “ کا ہی ہے ۔ قومی زبان جائے بھاڑ میں ، یہ ”جہازی“ رفتار کمپوزر حکومتی اور پرائیویٹ اداروں میں صرف وقت اور پیسا بچانے کے لیے ہائر کیے جاتے ہیں ۔ان کے ستم کا شکار ہونے والے الفاظ میں سے ایک لفظ ”اسامی“ بھی ہے جسے عموماً ”آسامیاں “ لکھا جاتا ہے درست املا”اسامی“ ہے اور ،اردو میں ایک کثیر تعداد اس قبیل ِ جمع کی مستعمل ہے مثلاً مساجد ، مقاصد ، مفاسد وغیرہ ۔


ضرورت برائے کھوجی
ہمارے معزّز کلائنٹ کو ایک ماہر کھوجی کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس ایک ماڈل تھا جو بدقسمتی سے کہیں گم ہو گیا ہے ۔اس ماڈل کی تیاری میں بائیس سال لگے تھے ۔

(جاری ہے)

ان کا خیال تھا کہ اس ماڈل سے وہ قوم کی تقدیر بدل دیں گے لیکن اب جبکہ( بقول ان کی ٹیم کے) وہ گھڑی آن پہنچی ہے تو ماڈل ہی کہیں گم ہو گیا ہے ۔ ”تکیہ“ معلومات کے مطابق یہ ماڈل رنگ بدلنے میں ماہر ہے اس لیے کسی نہایت ہی مشاق کھوجی کی ضرورت ہے ۔

گم ہونے کے بعد ماڈل سب سے پہلے چین پایا گیا اور کچھ عرصہ وہاں قیام کے بعد ملائشیا جا پہنچا ۔وہاں پکڑے جانے کا امکان پیدا ہوا تو سویڈن چلا گیا ۔چونکہ ماڈل اسلامی تھا اس لیے وہاں کا ماحول پسند نہ آیا تو وہ سعودی عرب بھاگ گیا ۔ سعودی عرب اگرچہ اسلامی ملک ہے لیکن ماڈل ہو یا میڈیا ،وہاں ایسی آزادی تو مل نہیں سکتی جیسی ہمارے کلائنٹ پاس ہے ،لہذا وہاں سے بھاگ کر شمالی کوریا کا رخ کر لیا ۔

ماڈل کو آمریّت بڑی پسند ہے اس لیے وہ ابھی تک اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے ۔
ہمارے معزّز کلائنٹ چونکہ ماڈل کو خود ماڈل سے بھی زیادہ جانتے ہیں لہذا انہیں خود بھی خبر نہیں ہے کہ ماڈل کیسا ہے ۔البتہ انہوں نے ایک نشانی بتائی تھی کہ ماڈل” رحونیّات“ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔جب سوال کیا گیاکہ رحونیّات کیسی دکھتی ہے تو ان کا جواب تھا:گم شدہ ماڈل کی طرح ۔

مزید آسانی کے لیے جب پوچھا گیا کہ دونوں کس طرح دکھائی دیتے ہیں تو انہوں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے جواب دیا تھا : میرے خیال میں دونوں ایک دوسرے کی طرح دکھائی دیتے ہیں ۔ہمارے کلائنٹ کے بقول اگرچہ یہ ایک ہی نشانی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ تین نشانیاں ہیں ۔ان تین نشانیوں کے علاوہ ہمارے معزّز کلائنٹ کے پاس بھی کسی قسم کا کوئی ”کلیو“ نہیں ہے ۔

جو کھوجی اس ماڈل کو تلاش کرنے میں دلچسپی اور قدرت رکھتا ہے وہ پانچ سال کے اندر اندر کسی بھی وقت درخواست دے سکتا ہے ۔وقت، تعلیم اور عمر کی کوئی قید نہیں ہے ۔
منجانب: آشیانہ صداقت ، امینی گلی ، محلہ اب نہیں تو کب ، نیا نظام ٹاوٴن ، بکسہ جدوجہد نمبر22۔
ضرورت برائے ترجمانِ نامعقولات
ہمارے محترم کلائنٹ کو ایسے کچھ قابل ترجمانوں کی ضرورت ہے جو ہتھیلی پر سرسوں جما سکیں ۔

اس منصب کے لیے تعلیم تو ضروری نہیں تاہم تجربے کے ساتھ ساتھ ڈھیٹ ہونا انتہائی ضروری ہے ۔کام بس اس قدر ہے کہ ہمارا کلائنٹ اگر دن بارہ بجے کہے کہ اس وقت رات ہے تو ترجمان فوراً ستاروں کے اعدادوشمار مہیّا کرکے اس بات کو ثابت کرے ۔بھرتی کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد ٹوئٹر پر تین روز مسلسل ایک ٹرینڈ چلایا جائے گا جس کا عنوان ہو گا ” بائیس سال کا گدھا اور بارہ سینگ “ ۔

خواہش مند حضرات اس ٹرینڈ پر دل کھول کر ٹویٹ کریں ۔تمام ٹویٹوں کی جانچ کرنے کے بعد اہل حضرات کو بذریعہ واٹس ایپ کال مطلع کر دیا جائے گا ۔منتخب حضرات کو پرکشش اعزازیّے اور مراعات کے ساتھ ساتھ قانون سے استثنا کی سہولت بھی دی جائے گی ۔
ضرورت برائے ماہرِ دشنامیات
ملک کے ایک مقدس ادارے کو ایک ایسے ٹیچر کی ضرورت ہے جو ”لغّتِ ممنوعہ“ میں نابغہ روزگار ہو ۔

اس ملک کی قوم اسی ادارے میں اسمبل ہوتی ہے ۔متمنّی حضرات کا دشنام طرازی میں یکتا ہونا ازحد ضروری ہے ۔درخواست دہندگان کو انتباہ ہو کہ ادارے میں یہ کام کئی سالوں سے جاری ہے اور سابقہ ریکارڈ بھی محفوظ ہے لہذا ”کاپی پیسٹ حضرات “ دور رہیں ۔ملک کے دل میں زندگی کا لطف دوبالا کرنے کے شوقین حضرات کے لیے یہ نادر موقع ہے ۔ ہماری کوئی ویب سائیٹ ہے اور نہ ہی برانچ ، اس لیے نمونے کے گالیوں کے چند صفحات لکھ کر براہ راست ہمیں ارسال کریں ۔

یہ صفحات چیکنگ کے لیے ایک بین الاقوامی ریسرچ ادارے کو بھیجے جائیں گے ۔ پلیجرازم رپورٹ آنے کے بعد اہل امیدواروں کو مطلع کر دیا جائے گا ۔
ضرورت برائے کمپیوٹر ہیکر
ہمارے معزّز سربراہ کو کمپیوٹر ہیکنگ میں ماہر درجن بھر ٹائیگر نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔ سربراہ تقریروں کے شوقین تھے۔ جاہل حضرات ان کی سابقہ تقریریں ، وعدے ، دعوے اور متّضاد باتیں میڈیا پر دکھا دکھا کر ان کو اور ان کے ماننے والوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں ۔

ہمیں ایسے حضرات کی ضرورت ہے جو ملک کے میڈیا ہاوٴسز کے مرکزی کمپیوٹر ہیک کر کے سارا ڈیٹا ضائع کر دیں تاکہ ان کے ماننے والے سر اٹھا کر جی سکیں ۔ایسے حضرات کو ترجیح دی جائے گی جو ملک کی عوام کے پاس سمارٹ فونز میں سے بھی ایسے ویڈیو ز کو ڈیلیٹ کر سکیں جو کسی بھی لحاظ سے سربراہ کے لیے ہزیمت کا باعث بن سکتی ہوں ۔اگر کوئی، ان کی لائیو تقریر میں بغیر کسی لوپ ان کے قابل اعتراض الفاظ ڈیلیٹ کر سکے تو ایسے حضرات ایک سادے جوڑے میں کل ہی لنگرخانے میں تشریف لا سکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :