
اِمتحانی اِدارہ کاَ اِمتحان
ہفتہ 9 جنوری 2021

خالد محمود فیصل
تعلیم یافتہ مگرمتوسط گھرانے کے بچے اور بچیاں اس کو اپنی اُمیدوں کا مرکز سمجھتے تھے اِنھیں کامل یقین تھا کہ اس کے زِیر نگرانی منعقدہ امتحانات میں مکمل انصاف ہوگا، اگر وہ اس کے معیار پر پورا اترے تو کوئی رشوت، سفارش،سیاسی اثرورسوخ انکی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوگا، لیکن حالیہ الزامات نے اِس کی ساکھ کو برُی طرح متاثر کیا ہے جس کی بحالی میں بڑا وقت لگے گا،کیونکہ ایک منظم مافیا نے جس انداز میں امتحانی پرچہ جات کا بھاری بھر معاوضہ لے کر امیدواروان کو اسکی فراہمی ممکن بنائی ہے اس کارستانی نے امیدواران کے علاوہ والدین کا اعتماد بھی مجروح کیا ہے،اس امتحانی زخم کو مندہل ہونے میں وقت لگے گا،عالمی میڈیا میں اس کا تذکرہ ہونے کی بدولت ہماری ڈگریوں کو بھی بیرون ملک مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا، عالمی رینکنگ میں ہمارے تعلیمی معیار کا شمار نہ ہونے کے برابر ہے، پھر ایسے قابل اعتماد آئینی ادارہ میں اس طرز کے منظم گروہ کا ہونااسکی اہلیت اور فول پروف انتظامی معاملات پر سوالیہ نشان ہے۔
(جاری ہے)
انسداد رشوت ستانی شعبہ کی اس بابت ملزمان کی پکڑ دھکڑ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے ڈانڈے جنوبی پنجاب میں بھی ملتے ہیں۔تاہم پنجاب کے عوام سرکار سے توقع رکھتے ہیں کہ جس میرٹ کے اطلاق کا بیڑا اس سرکار نے اٹھایا ہے ،اسکے مکمل نفاذ کی ایک صورت اس میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے ہی سے لازم ہے،یہ تبھی ممکن ہے کہ سزا اور جزا کی بابت کسی کا بھی منصب پیش نظر نہ رکھا جائے۔
اس سے قبل جامعات، اور تعلیمی بورڈز کے امتحانی پرچہ جات بھی آوٹ ہو تے رہے ہیں،یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ تعلیم یافتہ مگر بددیانت افراد ان شعبہ جات میں موجود ہیں،جو اَپنے ہم خیال پیدا کر لیتے ہیں اور پھر اِتنے خود سر ہو جاتے ہیں کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے،اگر کبھی پکڑے بھی جائیں تو کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ نکلتے ہیں کیونکہ ا نکی پشت پر اداورں کے بااثر افراد اور یونین ہوتی ہیں،ریکارڈ کی فراہمی سے لے کر انکوائری تک انھیں تحفظ فراہم کرتی ہیں،یہ عمل مافیا کے حوصلے بلند کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔
گذشتہ باوردی دور میں محکمہ، تعلیم، کارپوریشن ،اتھارٹیز،سیکٹریریٹ، اور وفاقی ڈ ویژن میں افراد کی بھرتی اور جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے حامل پروگرامز میں داخلہ جات کے لئے این۔ ٹی۔ ایس کے تحت امتحان پاس کرنے کو ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے
بعد دیگر ٹسٹنگ ایجنسی نے لائسنس متعلقہ اداروں سے حاصل کر لئے پولیس، موٹر وے اور نجی و سرکاری شعبہ جات میں تقرری کے لئے اس ٹیسٹنگ سسٹم کوقابل بھروسہ سمجھا گیا،بعد ازاں ان کے بھی کچھ سیکنڈل منظر عام پر آئے۔
جب سے امتحانی پرچہ جات کی کمپوزنگ بذریعہ کمپیوٹر ہونے لگی ہے اسکی شفاعیت زیادہ مشکوک ہوگئی ہے،اب پرچہ جات کا ایک سے زائد ہاتھوں سے گذرنا لاز م ہے جس سے فورل پرُوف نظام کی ضمانت نا ممکن ہے، میڈیکل،انجینرنگ یا دیگر پیشہ وارانہ شعبہ جات میں داخلہ لینے کا معاملہ ہو یا سرکاری و نیم سرکاری ملازمت کاحاصل کرنا ہو ،امتحان کے مرحلہ سے تو گذرنا پڑتا ہے،انٹری ٹسٹ کا اضافی بوجھ بھی طلباء وطالبات پر اس لئے ڈالا گیا تھا کہ سرکار تعلیمی بورڈ کے امتحانی طریقہ کار سے مطمئن نہ تھی، لیکن انٹری ٹسٹ کے قبل از وقت آوٹ ہونے سے اس طریقہ پر بھی تحفظات کا اظہار ہونے لگاہے ،جب سےMCQ طرز کے امتحانی پرچہ جات مرتب ہونے لگے ہیں ،اس سے نہ صرف تعلیمی معیار گرا ہے بلکہ طلباء میں تحریری صلاحیت میں کمی آنے لگی ہے،اس کے برعکس رٹاازم کو فروغ ملا ہے،اس طرز کے پرچہ جات کو آوٹ کرنا مافیاز کے لئے بہت آسان ہے ،مذکورہ کمیشن کے مافیاز نے اس لئے اِن پرَچہ جات کے بھاری بھر دام طے کئے تھے۔
ہمارے ہاں ہی شائد یہ روایت ہے کئی سال کی محنت کا جائزہ لینے کے لئے محض چند گھنٹے کا ایک امتحان اور سو سوال درکار ہوتے ہیں اس ہی میں طالب علم کی اہلیت کا فیصلہ کیا جاتا ہے، وہ بیچارہ یا تو کامیاب ہوتا ہے یا پھر ناکام قرار پاتا ہے۔
دنیا میں کسی اُمیدوار یا طالب علم کی صلاحیت کو جانچنے کا عمل یَکسر مختلف ہے، مرحلہ وار جانچ پڑتال اور جائزہ کی کسوٹی پر َکسی اُمیدوار کے علم اور عمل کو پرَکھا جاتا ہے اور اسکی بدولت اس کو کسی کام یا ملازمت کا اہل خیال کیا جاتا ہے،علاوہ ازیں تجربہ، اسکے عملی کام اور پروفیشنل ازم کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، ان کے قومی اداروں کی کارکردگی اس مشق کی مرہون منت ہے۔
یہاں میرٹ پر آنے کے باوجود بعض اُمیدواران کو مقابلہ دوڑ سے باہر کرنے کے لئے خود ساختہ پیمانہ مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کی آڑ میں من پسند افراد کو نوازا جاتا ہے اسکی بے پناہ مثالیں موجود ہیں،بدقسمتی سے ہمارے ہاں ر وزگار کے مواقع کم ہیں جب کہ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے، اس نوع کے سکینڈل تعلیم یافتہ طبقہ میں مایوسی پھیلانے کاموجب بنتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ملزمان کو کڑی سزا مل بھی جائے ،اس کاروائی سے سرکار بھی سُکھ کا سانس لے، تو کیا یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں اِیسے اداروں میں کوئی نیا گروہ جنم نہ لے گا، اس کی ضمانت بھلا کون دے گا؟ لہذا لازم ہے کہ محکمہ انسداد رشوت ستانی کو اپنا کام کرنے دیا جائے، تاہم اس نوع کے اسکینڈل کے قطعی خاتمہ کے لئے ماہرین کی مشاورت سے سوالات کا ایسا امتحانی طریقہ کار وضع کیا جائے کہ جس میں پرچہ جات کے آوٹ ہونے یا نقل لگنے کا امکان سرے سے ہی ختم ہوجائے اور اُمیدواران کی اہلیت سے رَٹاازم کی بو بھی ُنہ آتی ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.