راستہ

اتوار 18 اگست 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہم عید الا ضحی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ فون کی گھنٹی بجی ، دوسری طرف سے رونے کی آواز آرہی تھی ، لائن پر خالہ زاد بھائی چوہدری غلام مصطفی تبسم تھے ،دل گرفتہ آواز میں بولے، امی اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں ہسپتال سے گھر جارہے ہیں ہمیں حضرت علی  کا قول یاد آیا کہ” میں نے ارادوں کے بدل جانے سے اپنے رب کو پہچا ن لیا“ یہ قدرتی امر ہے کہ دنیا میں خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں ، ہماری سب سے چھو ٹی خالہ کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ پہلے وقتوں کی مڈل کلاس تک تعلیم یافتہ تھیں، انھیں شادی کے بعد ملازمت کا موقع تو نہ مل سکا لیکن انھوں نے بہت سی طالبات کو بلا معاوضہ پڑھانے کی خدمات انجام دی ، انکی دوسری خوبی یہ تھی وہ دیگر خواتین کی طرح ضعیف الا عتقاد ی پے یقین نہیں رکھتی تھیں، صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرتیں ا ن کے عقائد بڑے اچھے اور واضع تھے ، اسی فکر کو انھوں نے اپنی اولاد میں منتقل کیا اور ان تمام خرافات سے ساری حیاتی محفوظ رہیں جس کا شکار عمو می طور پر ہمارے ہاں خواتین ہو جا یا کر تی تھیں ۔

(جاری ہے)

مرحومہ نے سوگواران میں تجمل حسین، مرتضی کے علاوہ ایک بیٹی اور سب سے لاڈلا پوتا عمر مرتضی چھوڑا ہے جس کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ دادی کے تکیہ سے پیسے نکال کر اپنے کزن طیب،اور رافع کو ”عیاشی“ کرواتا۔
بوجھل دل اور بھاری قدمو ں کے ساتھ تحصیل کھاریاں میں واقع ان کے گا ؤ ں کتوارمیں داخل ہوئے تو مرحومہ والدہ ماجدہ بڑی شدت سے یاد آئیں، خالہ کی صورت میں جوماں کا اک رشتہ اس دنیا میں موجود تھا وہ بھی الوداع ہوا۔

مر حومہ اپنی بیماری سے لڑتے لڑتے اللہ کے حضور حاضر ہو گئیں ہمارا کامل ایما ن ہے شرک سے مبرا زند گی اوربیماری کے سبب انکی قبر یقینا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو گی ، جب ہم گا ؤں میں داخل ہو ئے تو مقامی جنا زہ گا ہ میں رسم قل کی تقریب جارہی تھی ۔ نعت خواں نبی آخر الزماں کی شان میں گلہائے عقیدت پیش کر رہے تھے، اس موقع پر شرکاء میں سے لوگ اٹھتے اور جیب سے کچھ رقم نکال کر ان کے سامنے رکھتے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک آخر ی نعت خواں نے نعت پڑھی ۔

بعد ازاں تقریب میں بطور خاص مدعو کیے گئے مقرر نے خطاب کا آغاز کیا تو پیسے دینے کی رسم اسی طرح رواں رہی، ہمارا گمان ہے کہ حاضرین اس کو اب بطور "ورتن"ہی خیال کر رہے تھے کہ ایک دوسرے کی اس نوح کی تقریب میں پیسے دینے کی یہ رسم اب بتدریج پختہ ہو رہی ہے اس کا مشاہدہ ہم نے یہاں نہیں کیا بلکہ رسم قل کی ہر تقریب میں یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔

معزز و محترم عالم محمد یعقو ب قادری نے اپنے انداز خطابت سے سادہ الفاظ میں اہل دیہہ کو فلسفہ موت سمجھا نے کی کاوش کی اور قربانی کی مناسبت سے بھی اظہار خیال کیا کچھ سماجی رویوں پر بھی بات کی اور رسم قل خوانی پر مہنگے کھانوں اور اسراف کو بھی موضوع سخن بنایا ، تذکرہ کشمیر بھی ہوا لیکن انکی گفتگو میں کوئی ترتیب دکھائی نہ دی ،بدقسمتی سے ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ وہ حاضر ین کو کیا سمجھانے کی کاوش میں مصروف رہے، پون گھنٹہ کی یہ تقریر مقصدیت حاصل کر نے میں کافی حد تک ناکام رہی یہ خالصتا ً مر دوں کی محفل تھی اسی طرز پر خواتین کے ہاں بھی رسم قل خوانی ادا کی گئی، وہاں نعت خوانی اور تقریر کا فریضہ خواتین مقررین نے انجام دیا اور انھیں بھی بھار ی بھر پیسے خواتین شرکاء کی جانب سے دیئے گئے ۔

ہماری قریبا ً ستر فیصد آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے ۔جہاں جمعتہ المبارک کے علاوہ دیگر رسومات کے مواقع پر آئمہ کرام کو خطابت کا پورا پورا مو قع ملتا ہے، لیکن اس کے با وجود ضعیف الا عتقادی، جرائم کی شرح اور دیگر خرافات بے حد زیادہ ہیں جو اس بات کی غمازی کر تی ہیں کہ اسلام کو بطور مکمل ضابطہ حیا ت کے فلسفہ کو سمجھانے میں مذہبی پیشوا ء نا کام رہے ہیں ، خواتین میں غیبت کا عام چلن،شادی بیاہ کی فضو ل رسومات ، فو تیدگی پر غیر شرعی رسو ما ت کا اظہار اور انعقاد بھی اسکی بڑی وجہ ہے، تعویز گنڈوں کی بنیاد پر خاندانوں میں جھگڑے حتیٰ کہ طلاق ،قتل و غارت بھی اسکا سبب ہے۔

بحیثیت شہر ی ریاست کے فرائض میں شامل ہے کہ ان تک دین کا صحیح فہم پہنچا یا جائے اور سینہ بہ سینہ پہنچنے والی روایات کی اصلاح کی جائے تا کہ انھیں بھی معلوم ہو سکے کہ اسلام خالصتا ً دین فطر ت ہے، خوشی اور غم کے مواقع کیلئے مکمل راہنما ئی سیر ت طیبہ میں موجود ہے ۔ اسکی روشنی میں ہی اگر سیرت کا پیغام پہنچانے کا فریضہ آئمہ کرام انتہائی دیا نتداری سے انجام دیں تو بجا طورپر بہت سی خرافات جو ہندوکلچر سے منسوب ہیں، از خود ختم ہو سکتی ہیں ۔

فی زمانہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں افراد کی تربیت کے لیے اکیڈمی کی ضرورت کو محسوس کیا جاتا ہے تو پھر اس طبقہ کو کیوں نظر انداز کیا جارہاہے جس کے ناتواں کندھوں پر اسلام کی تبلیغ اور اصلاح معاشرہ کی بھاری بھر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
 اس موقع پر ہم اس سوچ میں گم ہو گئے کہ نعت خواں حضرات اور آئمہ کرام کو رسم قل او چہلم کے موقع پر پیسے دینے کی روایت جس انداز میں جڑ پکڑ چکی ہے ۔

کیا یہ رسم ہمارے فقیاء کرام کے علم میں نہیں ہے ؟اگر شرکاء کا یہ عمل عین قرآن و سنت ہے تو پھر اس کو لازم قرار دیا جا نا چاہیے تا کہ دوسرے اس ”ثواب“ ۷۷سے محرو م نہ رہیں اور اگر اسکا تعلق سرے سے ہی ہماری شرع سے نہیں پھر اسکو جاری رہنابہت سے سوالات کو جنم دے گا ۔
ہمارے شہروں کی مساجد میں بھی روایتی خطبا ت دیئے جاتے ہیں، چند اک مساجد ایسی ہیں جہاں بھاری بھر علمی شخصیات یہ فریضہ انجام دیتی ہیں، جمعتہ المبارک کے خطبات میں عوامی دلچسپی بتدریج کم ہو رہی ہے، اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ سماجی مسائل کا تذکرہ آئمہ کرام کے خطبا ت میں شامل ہی نہیں ہوتا ،عبادات کے بار ے میں گفتگو بھی اس انداز میں نہیں ہو تی ہے جو اسکا تقاضہ ہے، لیکن وہ آئمہ کرام جو سماجی مسائل کو اور عبادات کی ادائیگی کو نئے انداز میں پیش کر تے ،زیادہ مقبول ہوتے ہیں ۔

 
نسل نو کو نماز کی طرف راغب کر نے کیلئے ضروری ہے انھیں طریقہ ہی نہ بتایا جائے، رکعتیں ہی نہ سنائی جائیں، ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے کی بحث میں نہ الجھا یا جائے بلکہ اس کے طبی ، سماجی ، اخلاقی ، روحانی ، معاشی فوائد سے بھی آگاہ کیا جائے، اس طرح طرح زکوة کا نصاب ہی نہ پیش کیا جائے بلکہ کسی دیہات کوماڈل کے طور پر مختص کر کے زمین، آبادی کے لحاظ سے زکوة اور عشر کی بنیا د پر متوقع رقوم کا تذکرہ اور اس کے نتیجہ میں غربت کے خاتمے کا تذکرہ کیا جائے تو عوام الناس کی دلچسپی میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے ،روزہ کے بھی طبی ، روحانی، اخلاقی، معاشی پہلو کا تذکرہ بھی نسل نو کی دلچسپی کا سبب ہو گا روزہ کا دیگر مذاہب سے تقابلی جائزہ اور سائنس کی بنیاد پر اسکے فوائد سے آگاہ کیا جانا بھی لازم ہے، اسی طرح جہاد اور جنگ کی تفریق کے حوالہ سے عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق آگاہی کا فریضہ انجام دیا جائے ۔

اس سے ہمیں مفر نہیں کہ آئمہ کرام قوم کی کردار سازی میں اہم اورکلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں تاہم سماج میں اعلی مقام پانے کے لیے انہیں اپنے اپنے مسلک کے فروغ کی دوڑ سے لا زماً باہر نکلنا ہو گا ۔
 قار ی یعقوب قادری اپنے خطاب میں ان امراء کا تذکرہ کر رہے تھے جنھوں نے اپنے والد کی رسم چہلم پہ مرغ بریانی اور مرغ پیس کا بطور خاص اہتما م کیا تھا وہ حاضر ین کو رسم قل پر سادہ کھانا مہمانوں کو پیش کر نے کی ترغیب دے رہے تھے، گرانی سے تنگ خاندان اب باہمی رضا و رغبت سے رسم قل پے دال اور چنے کے ساتھ کھانے کو اپنی اپنی بر داری میں رائج کر رہے ہیں جو کہ اچھا قدم ہے۔

 ہماری خواہش ہے کہ آئمہ کرام عوام الناس کے سامنے دین اسلام کو اسکی اصلی روح کے مطابق پیش کر یں اور لواحقین کو بتائیں کہ صدقہ جاریہ کے طور پر دولت خرچ کرنے کی بے شمار شرعی مدعات ہیں، جن میں مرحوم والدین کے لیے قربانی ، عمرہ اور حج ،صدقہ نہ صرف
مرحومین بلکہ ان کیلئے بھی باعث نجات ہوں گے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ دونوں پے بے شمار رحمتیں عطا کر ے گا، رسومات، خرافات اور اسراف سے بچنے کا اس سے بہتر کو ئی اور راستہ نہیں ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :