جامعہ پنجاب،جمعیت اور پشتون طلبا

منگل 28 مارچ 2017

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

کسی استاد کا نہیں ،اب یہ کام نصیراللہ بابر جیسے کسی سخت گیر منتظم کا ہے کہ وہ جامعہ پنجاب سمیت ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو سیاسی جماعتوں کی بچہ تنظیموں سے پاک کر دے ۔جن کے باپ اپنا پیٹ کاٹیں اور مائیں زیور بیچ دیں انہیں اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز کرنی چاہیے نہ کہ تعلیمی اداروں میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی منصوبہ بندی۔ جا معہ پنجاب کے سابق وائس چانسلر نے جمعیت کا زور توڑنے کے لئے جو لائحہ عمل اختیار کیا وہ اگر جاری رکھا گیا تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جو کراچی میں ایم کیو ایم کو پالنے پوسنے کے ہوئے ۔


سمعیہ راحیل قاضی سے میرا تعلق اتنا سا ہے کہ وہ مجھے بھائی کہہ کر بلاتی ہیں،ہو سکتا ہے میری یہ تحریر ان کوگراں گزرے لیکن قلم کی حرمت مجبور کرتی ہے کہ وہی لکھوں جو حقائق کے مطابق ہے ۔

(جاری ہے)

کل ٹیلی فون پر انہوں نے جا معہ پنجاب میں ہونے والے حالیہ واقعہ کی ذرائع ابلاغ میں کوریج سے متعلق بہت گلے شکوے کئے اور بجا کئے ۔ ٹیلی ویژن چینلز پر جو کچھ بتایا جاتا رہا وہ یک طرفہ تو تھا ہی لیکن حقیقت سے بھی بہت دور تھا۔

سچ تویہ ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گز ر چکا ہے ۔جا معہ پنجاب میں جمعیت کی جو دھاک تھی وہ اس واقعے کے بعد باقی نہیں رہی ۔ تاریخ میں پہلی بار جمعیت کو جامعہ پنجاب میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، گو کہ اس کا دوسرا پہلو بھی اتنا ہی تاریک ہے جتنا جمعیت کی طرف سے تعلیمی اداروں میں ہنگامہ آرائی کا۔ جمعیت کو اگر اپنی سوچ مسلط کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا تو کسی دوسرے گروہ کو یہ اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ جمعیت کا زور توڑنے کی قیمت اپنی سوچ کو مسلط کر کے وصول کرے ۔

عمران خان پر تشدد ، انہیں ڈنڈہ ڈولی کر کے جامعہ سے اٹھا کر باہر پھینکنے سمیت بہت سے واقعات ایسے ہیں جن پر جمعیت کا موقف بہت کمزور اور دلائل بودے ہیں ۔ جمعیت کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں کہ وہ ڈنڈے کے زور پر تعلیمی اداروں میں اپنی سوچ کو مسلط کر سکے لیکن بدقسمتی یہی ہے کہ ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں یہ طالبانی سوچ جڑ پکڑ چکی ہے ۔ خود کو اعلیٰ علین میں شمار کرنا او رمخالفین کو اسفل سافلین گردان کر گردن زدنی قرار دینا ہمارا وطیر ہ بن چکا ۔


لمحہ موجود میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبا یونین پر پابندی ہے اوراس پابندی کا اطلاق سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی ایسے ہی ہونا چاہیے جیسا کہ جماعت اسلامی کے اعلی ذمہ داروں کے قائم کئے گئے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے ۔ لیکن اگر ایک لمحے کے لئے اس سے صرف نظر بھی کیا جائے تو جمعیت سمیت کسی بھی طلبہ تنظیم کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر اپنے نظریات مسلط کرے۔

لیکن صاحبان دانش اور اہل قلم پر بھی لازم ہے کہ اگر وہ جمعیت سے فکری اختلاف رکھتے ہیں توبھی معاملے کو عدل کے اصولوں کے مطابق پرکھیں ۔
جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ذرائع ابلا غ میں اس واقعہ کی رپورٹنگ یک طرفہ ہوئی ہے ۔ اصل واقعات کچھ ایسے ہیں کہ جھگڑے والے دن جامعہ میں پشتون کلچرل فیسٹیول کے ساتھ ساتھ جمعیت کے زیراہتمام دو پروگرام جاری تھے ، پہلا تئیس مارچ کی مناسبت سے طالبات کا تقریری مقابلہ اور دوسری تصویر ی نمائش ۔

پشتون کلچرل فیسٹیول کے منتظم طلبا کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کہ اجازت کے باجود ان کو کئی دن سے دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ یہ فیسٹیول نہیں ہونے دیا جائے گا اوریہ دھمکیاں جمعیت کے ناظم اسامہ اعجاز کے نوٹس میں بھی لائی گئیں ۔ دوسری طرف جمعیت کے زیراہتمام ہونے والے دونوں پروگرام جامعہ پنجاب کی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کئے گئے ۔(یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ اتنی کمزور کیوں ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر جامعہ میں کوئی پروگرام ہوجاتاہے)پشتون کلچرل فیسٹیول میں پنجاب کے وزیرتعلیم علی رضا گیلانی مہمان خصوصی تھے ۔

اور اس فیسٹیول کے پنڈال سے کوئی سو گز کے فاصلے پر جمعیت کا پروگرام چل رہا تھا ۔ جمعیت کے پنڈال میں ا س کے ترانے چل رہے تھے اور پشتون کلچرل فیسٹیول میں پشتون موسیقی ، دونوں طرف لگائے گئے ساوٴنڈ سسٹمز ایک دوسرے سے مقابلے میں چل رہے تھے جس دوران یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق اس نے دونوں پنڈالوں میں بجلی کی سپلائی کاٹ دی ۔ یہی وہ وقت تھا جب جمعیت کے مجاہد پشتون کلچرل فیسٹیول کے پنڈال پرچڑھ دوڑے ،اندازہ یہ لگایا گیا تھا کہ جمعیت کو چیلنج کرنے والے ان طلبا کو چارسوٹے لگے تو بھاگ اٹھیں گے ، لیکن دوسری طرف جمعیت کے ممکنہ حملے کا جواب دینے کی تیاری مکمل تھی اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

پشتون کلچرل فیسٹیول کے شرکا نے جمعیت کے لڑکوں کی خوب دھنا ئی کی اور پنجابی محاورے کے مطابق جماعتیوں کے” رج کے کھُنے سیکے“ ۔ اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق جمعیت کے چار پانچ طلبا ہسپتال کے آئی سی یواور برن یونٹ میں ہیں اور میر ی اطلاع کے مطابق ان زخمیوں میں سمیعہ راحیل قاضی کا بھانجہ بھی شامل ہے ۔ پشتون طلبا نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ جمعیت کے زیراہتمام جاری طالبات کے پروگرام پر حملہ کیا گیا اور پنڈال کو آگ لگا دی ۔

بریکنگ نیوز کی بھوکی ٹی وی سکرینوں کا پیٹ بھرنے کے لئے اس طرح کی آگ بہت کام آتی ہے ، سو اس دن بھی آئی اور سارا میڈیا یہی سمجھتا رہا کہ جمعیت نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے ماضی کی طرح مخالفین کا پنڈال الٹ دیا ہے لیکن جب گرد تھمی تو پتہ چلا کہ جمعیت تو خود اپنے زخم چاٹ رہی ہے ۔ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ بڑے بڑے دیشوں میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں ۔

اگلے دن میڈیا کو نئی بریکنگ نیوز میسر آگئی اور رات گئی بات گئی ۔
اس سارے قضیے میں جمعیت کے اس مجاہد کو اکیس توپوں کی سلامی دی جانی چاہیے جس نے پشتون کلچرل فیسٹیول پر حملہ کرنے کافیصلہ کیا۔ میرا خیال ہے کہ بغیر اجازت کئے جانے والے پروگرام میں جانے سے سمیعہ راحیل قاضی صاحبہ کو معذرت کر لینی چاہیے تھی ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پشتون طلبا کو جمعیت کی مخالفت میں کھل کھیلنے کی اجازت دی جائے ۔

ایک مسلم معاشرے میں خواتین کا جو احترم ہے اسے ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے تھا ۔ بعض اطلاعات کے مطابق سمیعہ راحیل قاضی صاحبہ اور ان کے ساتھ دوسری خواتین کو بھی دھکے دئیے گئے اور ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی لیکن میرے ساتھ بات چیت میں خود سمیعہ راحیل قاضی صاحبہ نے اس پہلو پر کوئی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے کہا کہ جب میں نے پشتو میں حملہ آور لڑکو ں کو مخاطب کر کے غصے سے یہ کہا کہ تم کن ماوٴں کے بیٹے ہوں جنہوں نے تمھاری ایسی تربیت کی ہے تو ان میں سے دو لڑکے ٹھٹھک گئے اور واپس چل پڑے ۔

بہرحال یہ ایک انتہائی افسوسنا ک واقعہ ہے ۔ پنجابی کہاوت ہے ”دھیاں تے بھیناں سانجھیاں ہوندیاں نیں“پنجاب کی سرزمین پر پشتونوں کی یہ حرکت انتہائی شرمناک ہے ۔ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہمارے طلبہ کو اخلاقی گراوٹ کے اندھے کنویں میں گرنے سے بچانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرے اورمستقبل میں اس طرح کے کسی بھی واقعے سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں میں طلبا یونین پر پابندی کا سختی سے اطلاق کرے ۔

کالجز اور جامعات میں جانے والے سولہ ،اٹھارہ برس کے کچے ذہن اس قابل بالکل نہیں ہوتے کہ ان کو خوبصورت نعروں سے لبھا کر ان کی توجہ تعلیم سے ہٹا کر سیاست پر لگا دی جائے ۔ ایک ناکام طالب علم ایک کامیاب سیاستدان کبھی نہیں بن سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :