وزیراعظم ،جے آئی ٹی اور ممکنہ خودکش حملہ

جمعرات 15 جون 2017

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

معلوم نہیں تاریخ خود کو دہرا رہی ہے یاایک نئی تاریخ مرتب ہو رہی ہے ۔ یار وں نے بیس برس پرانا قصہ چھیڑ دیا ہے کہ ن لیگ نے پہلے بھی ججوں پر حملہ کیا اور ان کو جوتیاں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیاتھا ،اب بھی ن لیگ وزراکے بیانوں کی توپیں مختلف اداروں پر حملہ آور ہیں ۔ 1997کا ذکر چھڑا ہے تو ماضی کے دریچوں سے نکل کر بہت کچھ ذہن کے پردہ سکرین پر نمودار ہورہا ہے جب وزیراعظم نوازشریف نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کی ضد پر ان کی مرضی کے پانچ جج دے دئیے تھے لیکن شاہ صاحب کی انا کا غبارہ تھا کہ مسلسل پھولے جار ہا تھا ۔

عقل والوں کو صاف نظر آرہا تھا کہ چیف جسٹس سجادعلی شاہ اور صدر فاروق لغاری جمہوریت کے خلاف ایک غلیظ سازش کے تحت آئین کی تیرھویں ترمیم معطل کر کے بدنام زمانہ 58/2Bکے کلہاڑے سے منتخب حکومت کا جھٹکا کرنا چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس سجا د علی شاہ نے پہلے تو دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا کارنامہ انجام دیا کہ فلو رکراسنگ سے متعلق پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظورہونے والی چودھویں آئینی ترمیم کو معطل کردیا ۔

وزیر اعظم نواز شریف نے غیر آئینی اقدام اور بغیر کسی اخلاقی جواز کے پارلیمنٹ کے چھابے میں ہاتھ مارنے پر چوں چراں کی توان پر توہین عدالت لگا دی گئی ۔ملک کا وزیراعظم سپریم کورٹ میں پیش ہوا توپہلے تو غیر ضروری طور پر کبرو نخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں لمبا انتظار کرایا گیا پھر اعلی ترین ”اخلاقی قدروں“ کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ان کی وضاحت کو مسترد کردیا گیا اور انہیں دودن بعد 19نومبر کو دوبارہ عدالت کے کٹہرے میں طلب کر لیاگیا۔

معلوم نہیں چیف جسٹس سجاد علی شاہ خود کو خدا کا فرستادہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ضیا کی آمریت کی کریہہ صورت نشانی 58/2Bکو بحال کرنے کے لئے تیرھویں آئینی ترمیم کابھی جھٹکا کردیا۔ تیرھویںآ ئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے سازش کی بنیاد پر بنے اس کالے قانون کو متفقہ طور پر منسوخ کیا تھا۔ لیکن برے نصیب کے شاہ جی کے اپنے ادارے میں بیٹھے ججوں کو ان کی یہ ادا ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے الٹا چیف جسٹس سجاد عالی شاہ کا ہی دھڑن تختہ کردیااوراس سے پہلے کہ صدر فاروق لغاری کوئی کارنامہ سرانجام دیتے سپریم کورٹ نے تیرھویں آئینی ترمیم کو بھی بحال کر دیا۔

صدر فاروق لغاری کی شدید خواہش تھی کہ وہ 58/2Bکے ذریعے شاہراہ دستور کے عین بیچ میاں نواز شریف کی حکومت اور پارلیمنٹ کا جھٹکا کریں لیکن ان کو راولپنڈی کی حمایت میسر نہ آسکی اور پھر وہ خود بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ۔
آج صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف وہی نواز شریف بطور وزیراعظم سپریم کورٹ کو نہیں بلکہ اس کی بنائی ہوئی ایک تحقیقاتی ٹیم کو اپنے مرحوم با پ کا حساب کتاب دینے کا سزاوار ٹھہرایا گیا ہے بلکہ اس کی اولاد بھی تحقیقاتی ٹیم کے ملزموں کی قطار میں کھڑاکردیا گیا ہے ۔

معاملہ لندن فلیٹس کا تھا لیکن بات پہنچی تیری جوانی تک ، لے دے کر میاں شہباز شریف کی فیملی بچی تھی اب ان کو بھی سندیسہ مل گیا ہے ۔ بیس کروڑ باسیوں کے اس ملک میں کوئی ایک یہ پوچھنے والا نہیں کہ کیا پانامہ دستاویزات میں صرف وزیراعظم کے بیٹوں کا ہی نام ہے؟ سینکڑوں دوسرے پاکستانیوں کو چھوڑ کر صرف حسین نواز کا باپ ہی کیوں ؟صرف اس لئے کہ وہ وزیراعظم ہے یا کسی دوسرے کی ہوس اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔

وئی بھی شخص جو اس قوم کا پیسہ لوٹے اس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رو رعایت نہیں برتی جانی چاہیے لیکن انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے ۔ وزیراعظم کو سیاست کے خار زار میں تیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اس دوران دوبار پیپلزپارٹی کی حکومت اورایک بار کمانڈو حکومت نے ان کا احتساب کیا ۔ نوے کی دہائی میں احتساب الرحمان نے کیا گل کھلائے ان کی حمایت کی کوئی مجبوری اس خاکسار کو لاحق نہیں لیکن پرویز مشرف جیسے جانی دشمن کو اگر نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں مل سکا تو جے آئی ٹی کے ارکان آج کس بنیاد پر اپنے ہی اداروں پر ریکارڈ میں ردو بدل کا الزام عائد کر رہے ہیں ۔

مکمل آن لائن ریکارڈ تو آج بھی شائد نادار کے علاوہ پاکستان کے کسی سرکاری ادارے میں میسر نہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ کسی سرکاری ادارے سے تین برس تو کیا تین مہینے پرانی فائل دیکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ یہ صرف نواز شریف کا قصور نہیں ،ستر برس کی غلطیا ں اور کمزوریاں ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی سے آج بھی ہماری جان جاتی ہے بھلے وہ کسی ادارے میں حاضری کا نظام ہی کیوں نہ ہو۔

ملک کی اعلی ترین عدالت نے اپنی بصیرت اور واٹس ایپ کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے قوم کے بہترین دماغوں کو جے آئی ٹی میں اکٹھا کیا ہے، جنہوں نے صرف چوبیس گھنٹے میں تصویر لیک کرنے والے کا سراغ لگا لیا لیکن جس کو بھی تحقیقات کے لئے بلاتے ہیں اس کو حکم ملتا ہے متعلقہ ریکارڈ ہمراہ لائیں ،یعنی سواری اپنے سامان کی حفاظت خود کرے کے مصداق اپنے خلاف ثبوت خود لائیں ۔


لال حویلی کے مکین سمیت سیاسی مخالفین کا یہ کہناہے کہ نواز شریف خودکش حملوں کا عادی ہے ۔ مجھے خدشہ ہے کہ وزیراعظم ایک اور خود کش حملہ کرتے ہوئے جے آئی ٹی کو یہ گزارش نہ کردیں کہ حضور میری زندگی کے جو چند صفحات غائب ہیں وہ1999میں لاہور میں میں میری رہائش گاہ کی ایک کمانڈو کے ہاتھوں فتح کے دوران غائب ہوگئے تھے، براہ کرم اس کو طلب کر کے دریافت کیجئے ۔

سنا ہے کوئٹہ کی عدالت اس کو بغیر کسی پیشی کے باعزت بری کر چکی ہے لیکن راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت روز اس کے نام کی دہائی دیتی ہے ،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سنگین غداری کیس میں عدالت نے اسے دل کے ایک ہسپتال کی طرف سے کمر درد کا سرٹیفکیٹ دیکھ کر علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجاز ت دی تھی ۔باوثوق ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ دبئی میں ” ڈانس تھراپی “ کے ذریعے کمر درد کا علاج کروا رہا ہے ۔

براہ کرم جے آئی ٹی میں ایک انٹرویو اس کابھی کر لیجئے شائد یہ گھتی سلجھ جائے اور کھوئے ہوئے پنے واپس مل جائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب اس سے بھی بڑا خود کش حملہ کرنے کا سوچیں اوریہ سمجھتے ہوئے کہ جے آئی ٹی تو اس قدر طاقت ور نہیں جس قدر عدالت عظمیٰ ہے ،وہ عدالت عظمیٰ سے بصد احترام گزارش کریں کہ میں تو عدالت کے مقرر کئے تفتیش کاروں کے سامنے بمعہ اہل و عیال حاضر ی دے چکا ہوں ، میرا قصور ثابت کیجئے اور مجھے انصاف کی سولی پر لٹکا دیجئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ براہ کرم ایک کام اور کر دیجئے ۔

ریاست کا ایک اشتہاری ملزم کو جو کبھی ایک عدالت سے چھپتا ہے تو کبھی دوسری عدالت سے استثنیٰ مانگتا ہے ،وہی جو پانامہ کیس میں روزانہ خوشبو لگاکر عدالت عظمی میں پیش ہوتا تھا اس سے گزارش کیجئے کہ وہ کچھ وقت نکال کر آپ کی ایک ماتحت عدالت میں ہی حاضر ہوجائے ۔ دوسرا اشتہاری زکوة صدقات کی بھیک لینے تازہ تازہ کینیڈا سے آیا ہے،براہ کرم قانون اور انصاف کے بول بالے کے لئے اس کی بھی طلبی کیجئے ۔

چلئے مان لیا ان دونوں کے دل میں قانون اور عدالت کا رتی برابر احترام موجود نہیں لیکن آپ ہی کی برادری کے ایک چیف جسٹس ہوا کرتے تھے جو عدلیہ کا افتخار تھے ، کچھ ناہنجاروں نے ان کے معصوم بیٹے پر بہت غلیظ الزامات لگائے تھے جس کی شفاف تحقیقات کے لئے خود چیف جسٹس نے بھی قرآن کو گواہ بنایا تھا براہ کرم اس معاملے کی تحقیقات کے لئے بھی ایک جے آئی ٹی بنا دیجئے ۔

مائی لارڈ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تمام غیر قانونی بھرتیوں کو کالعدم قرار دے دیا لیکن اس کے ذمہ دارمعلوم نہیں کوہ قاف میں غائب ہوگئے ہیں ، براہ کرم ایک جے آئی ٹی اس کے ذمہ داروں کی تلاش کے لئے بھی بنا دیجئے ۔ حضور والا!اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ایک انتہائی آسان گزارش پیش خدمت ہے ۔

حال ہی میں ایک معزز جج کے ساتھ دہشتگردی کرنے والے راولپنڈی کی خانقاہ کے سجادہ نشین کے بیٹے پر دہشتگردی کے مقدمے کا راتوں رات معلوم نہیں کیا ہوا کہ ملزم کو ساتھیوں سمیت ضمانت پر رہائی مل گئی ۔ سنا ہے ان کی رہائی سے ایک دن پہلے دو چار اخباروں میں ملزم کے والد کی طرف سے معافی نامہ شائع کرایا گیا تھا ۔ مائی لارڈ میں اپنی زندگی کے کچھ پنوں کی گمشدگی کا جرم تسلیم کرتے ہوئے کل کے تمام اخبارات میں پورے صفحے کا رنگین معافی نامہ چھپوانے پر تیار ہوں مجھے بتا یا جائے کہ ایدھی کو کتنا ہرجانہ ادا کرنا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :