کیا کہانی ختم ہوئی ؟
جمعہ 14 جولائی 2017
(جاری ہے)
سب سے پہلی بات تو یہ کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی رپورٹ کی پابند نہیں۔گو مجھے یہ ناممکن لگتا ہے لیکن سپریم کورٹ اس رپورٹ کو رد بھی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ عمران خان نے ثابت ثابت کا شور مچا کر اپنے کارکنوں کا ذہن بنادیا ہواہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ دس جولائی کو نہیں تو آئندہ سوموار کوسپریم کورٹ نوازشریف کو نا اہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دے گی تو ان کے لئے بری خبر یہ ہے کہ ایسابھی کچھ نہیں ہورہا اور سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی سفارشات کی روشنی میں پانامہ کیس پر اپنی کارروائی آگے بڑھائے گی۔
معاملہ اگرنیب کوبھیجا جاتا ہے تو وزیراعظم کے سیاسی مخالفین کے لئے یہ بھی کوئی اچھی خبر نہیں کیونکہ حسین نواز اور حسن نواز برطانوی شہری ہیں اور وہ نیب کو لال جھنڈی دکھا سکتے ہیں، رہی بات وزیراعظم کی تو یاد کیجئے ان کے پاس استثنیٰ کا حق محفوظ ہے جسے وہ کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں اور اگر ایسا ہواتو پھر نیب ”اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے “ہی گائے گا۔ اگر کوئی صاحب علم یہ سمجھتا ہے کہ سپریم کورٹ اس کی روزانہ سماعت کے بعد چند ہفتوں میں فیصلہ سنا دے گی تو میری دانست میں شائد ایسا ممکن نہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک قانونی اور آئینی ماہر دونوں اطراف موجود ہیں اگر الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف پارٹی فنڈنگ کیس تین سال سے آگے نہیں بڑھ سکا توا س کی بھی امید مت کیجئے ۔ ویسے بھی مسلم لیگ ن جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سختی سے مسترد کر تے ہوئے عدالت عظمیٰ میں اسے چیلنج کرنے کااعلان کرچکی ہے اور سپریم کورٹ اس معاملے کو سننے سے انکارکیسے کر سکتی ہے ۔ یہ کیس لمبا چلے گااور کون جانے کہ کب تک چلے گا۔فرض کیجئے اگر سپریم کورٹ عمران خان کے خواب کے عین مطابق فیصلہ سنا بھی دیتی ہے تو ظاہر ہے مسلم لیگ ن اس کو تسلیم کرنے کی بجائے چیلنج کرے گی ۔عین ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات درست کئے جائیں اور پھر پارلیمانی اور عوامی طاقت کا مظاہر ہ کیا جائے کیونکہ پیپلزپارٹی پہلے دن سے اس معاملے کو عدالت کی بجائے پارلیمنٹ میں لانے کی حامی ہے۔ایک اور تھیوری جو پیش کی جارہی ہے کہ معاملہ سول اور ملٹری سپرمیسی کا ہے اور مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے اور ڈان لیکس رپورٹ بارے ٹوئٹ واپس لینے پر اصرار نہ کیا جاتا تو نوبت بہ ایں جارسید نہ ہوتی ۔ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہر دور میں زیر بحث رہے ہیں اوراگر یہ معاملہ آئندہ انتخابات تک حل نہ ہوا تو مسلم لیگ ن خود کو یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب سمجھے گی کہ اسے سیاسی جنگ کے لئے دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ”ہموارسطح “ فراہم نہیں کی گئی جیسا کہ 2013کے انتخابات کے بارے میں پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے لئے اب اخلاقی طورپر عہدے پر فائز رہنے کا جواز تقریباََ ختم ہو چکا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ اب اخلاقی سے بڑھ کر قانونی اور اس سے بھی آگے سیاسی ہو چکا ہے اور میری دانست میں اس وقت بھی مسلم لیگ ن سے بہتر سیاسی لڑائی اور کوئی جماعت نہیں لڑ سکتی ۔ لیکن !اگریہ سارا تجزیہ رام کہانی بھی ثابت ہوجائے اور تحریک انصاف مرکز میں حکومت بنا بھی لے تو تبدیلی کیا آئے گی ؟راجہ ریاض،شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، فردوس عاشق اعوان ، فواد چودھری ،بابرا عوان اور نذر گوندل کی پارٹی تو تبدیلی لانے سے رہی ۔ لیکن ایک تبدیلی کا امکان واضح ہے کہ اقتصادی راہداری سمیت مسلم لیگ ن کی حکومت کے شروع کئے گئے تمام ترقیاتی منصوبوں کا مکو ٹھپ نہ دیا گیا تو یہ التوا کا شکار ضرور ہو جائیں گے ۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.