شکایت خدا سے کروں یا معاشرے سے؟

جمعرات 5 نومبر 2020

Maheen Siddiqui.

ماہین صدیقی

اکثر جگہوں کے باہر شکایات کا ڈبہ موجود ہوتا ہے، ہر ادارے کا اپنا اپنا ایک پتہ ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے ناساز تجربات کی شکایات کر سکیں، کبھی صرف اسغرض سے نہیں کہ اپنا رونا کسی کے سامنے رویا جا سکے، بلکہ اس لیے بھی کہ ادارہ اپنی غلطی سے سیکھے اور اپنی انتظامیہ بہتر کر سکے۔
اگر خدا سے بات کرنے کا کوئ بلواسطہ، یا بلاواسطہ ہی سہی، طریقہ موجود ہوتا، تو شاید۔

۔۔ نہیں، یقیناً میں خدا کو لکھتی۔ ُاس سے وہ سوال کرتی جو مجھے بہت تنگ کرتے ہیں، اُس سے وہ ساری شکایات کرتی جو انسانوں سے کرتے ڈر لگتا ہے۔
میں لکھتی، یہ انسانوں کی بستی اس نے کیوں بنا ڈالی ہے؟   کیا فرشتے اس کی حمد کرنے کے لیے کافی نہیں تھے؟ کیوں اُس نے ایک پر امن زمین میں تخریبکار، مشتعل انسان بھیج دیے؟ کیوں اُس نے سوچا کہ لوگوں سے انکا سکون ایسے چھین لیا جائے کہ وہ ساری زندگی بس اِسے ہی ڈھونڈتے رہیں؟ اتنی بڑی زمین بنا دی اُس نے مگر انسان کو اتنی وسعت نہ دی کی وہ اسے پورا دیکھ سکے؟
میں پوچھتی، جب اس نے ایک ہی کتاب امتِ مسلمہ پہ نازل کی تھی، تو فرقوں کی گنجائش کہاں سے  پیدا ہو گئ؟ جب اُس نے کہا تھا کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظتخود کرے گا، تو کیسے اس نے انسانوں کو اس کی تفصیر و تشریح کی اجازت دے دی؟   وہ اپنی بات اپنی کتاب میں ایسے کیوں نہیں کہہ سکا کہ سب سمجھ سکیں؟
میں لکتھی، اگر وہ نہ چاہے تو پتّہ بھی نہیں ہل سکتا، اگر وہ نہ چاہے تو کوئ چاہ بھی نہیں سکتا، اگر وہ نہ چاہے تو کوئ جی نہیں سکتا، مر نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

اگر وہ نہ چاہےتو کوئ ایمان نہیں لا سکتا، اگر وہ نہ چاہے تو کوئ ثواب کا کام بھی نہیں کر سکتا، یہ توفیق بھی وہ خود دیتا ہے، تو اگر وہ نہ چاہے تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ میں پوچھتی، جب کسی چیز  پہ ہمارا اختیار نہیں تو نا فرمانی پہ جہنم کی سزا ہمارے لیے مختص کیوں؟
میں لکھتی، مجھے اس معاشرے سے بڑی شکایات ہیں، اس بستی کی بہت سی باتیں مجھے افسردہ کرتی ہیں۔

میں پوچھتی، کہ کیا یہ سماج کچھ سوچ کے بنایا گیا تھا؟ کیااُس نے یہی سوچا تھا کہ ایک بستی ہوگی، وہاں کے لوگ ایک معاشرے کی چکی میں گھومتے رہیں گے؟ وہاں کے افراد اپنے لیے نہیں، صرف اس جملے پہ جیئںگے کہ “لوگ کیا کہیں گے؟” کیا اس نے یہ بستی بناتے ہوئے سوچا تھا کہ یہاں کے ہر انسان کے پاس عقل و شعور ہو گا، اس کی پسند اور نا پسند، خوشی اوراداسی، محبت اور نفرت جیسے احساسات کی مکمل آزادی ہو گی، پھراس سے یہ امید کی جائے گی کہ وہ اپنے اِن تمام احساسات پہ اختیار رکھنے کہ باوجود بھی یہقیمتی ڈور اس معاشرے کو تھما دے؟ اُن کی نظر سے ہی خود کو دیکھے، پرکھے؟ کیا اپنا جائزہ بھی وہ زمانے کی اُس نظر سے کرے جس میں انفرادیت نہیں ہے؟خدا نے کیا واقعی یہ سوچ کہ ایک بستی میں انسان کو قید کر دیا جہاں وہ اپنے لیے کچھ کرنا چاہے تو باغی کہلائے؟
 میں لکھتی، جب اُس نے حقوق اور فرائض سب بیان کر دئیے، تو کیا سوچ کے اُس نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل کیا جہاں لوگ مذہب کہ نام پہ دوسروں کااستحصال کرتے رہیں اور کسی ردِعمل کی گنجائش بھی نہ رکھیں۔

میں لکھتی، کیوں اس نے مذہب کو انسانوں کے سہارے چھوڑ دیا؟ کیوں انسانوں کو  اتنیگنجائش دی کہ وہ حقوق و فرائض میں ردوبدل کر سکیں؟ کیوں اس معاشرے میں ایسا ہے کہ انسان اپنے حقوق کی بات نہیں کر سکتا۔ ایسا کیوں ہے کہ یہاں کےلوگ بہو کو گھر اس لیے لاتے ہیں کہ بیٹا ملک سے باہر ہوتا ہے، بہو گھر آئے گی تو ساس سسر کا خیال چپ چاپ کرے گی، کیونکہ حسنِ سلوک تو مذہب میںہے۔

ُاس کا فرض نہ ہونے کے باوجود بھی اُس کو یقین دلایا جاتا ہے کہ  ساس سسر اسکی ذمہ داری ہیں، بڑوں کی خدمت کرنا اُس کا فرض ہے۔ اگر مذہب کانام نہ بھی لیا جائے تو “معاشرتی اقدار” کے خوبصورت لفظ سے اس ظلم کو ڈھانپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں یہ، اور اس جیسی بہت ساری معاشرتی اقدار کیشکایات خدا سے کرتی۔
میں لکھتی، جب اسلام نے پسند شادی سے منع نہیں کیا تو یہ معاشرہ کیوں کرتا ہے؟ میں پوچھتی، اس معاشرے میں عورت کے پاس نکاح نامہ صرف دستخط کےلیے کیوں لایا جاتا ہے؟ کیوں اسے یہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کن شرائط پہ دستخط کر رہی ہے؟ میں شکایت کرتی، کہ یہ کن معاشرتی اقدار میں قید کر دیاہے اُس نے ہمیں؟
میں لکھتی، جب کہہ دیا گیا کہ ہر بندا اپنے قول اور فعل کا ذمہ دار خود ہے، تو کیوں اِس بستی کے لوگ  یہ نہیں سمجھتے؟ کیوں اِنہیں لگتا ہے انکا اجتعمائی فرضہے ہر  ایک کی زندگی پہ بات کرنا؟ کبھی کبھی ایسا لگتا کہ روزِقیامت اس بستی سے حساب بھی مشترکہ لیا جائے گا۔

میں پوچھتی کہ جب جینے کا حق دے دیا گیا، تویہ بستی والے یہ حق چھینے پہ کیوں بضد ہیں؟ میں شکایت کرتی کہ اِس بستی کے لوگ بہت بے کار بولتے ہیں، جینے نہیں دیتے۔
میں لکھتی، خدا نے اس معاشرے کے لوگوں کو اتنی طاقت کیوں دی کہ وہ کسی کا فتل کر سکیں؟ کسی کی جان لینے سے بڑا ظلم کوئ نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی اسبستی کے لوگ مذہب کے نام پہ جان لینے کو تیار بیٹھے ہیں۔

میں شکایت نامے کے کسی صفحہ پہ بڑا نمایاں لکھتی کہ اس بستی کے لوگ طاقت کو مذہب سے جوڑکے اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ کسی غیر مسلح فرد کو ایک لمحے میں ختم کر دیتے ہیں اور اس ظلم پہ جشن مناتے ہیں۔ میں پوچھتی، جب خدا نے ابلیس کوبھی گستاخی پہ چھوڑ دیا، تو اس بستی کے لوگ موقع کیوں نہیں دیتے؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سدھرنے کے لئے، معافی مانگنے کی لئے بھی زندگی چاہیے۔

کیا ایسیہی بستی سوچی تھی اس نے بھی جہاں لوگ توبہ کرنے موقع بھی فراہم نہ کریں؟
میں لکھتی، جب کہا گیا کہ مرد  اور عورت برابر ہیں، تو اس کی تفصیل ساتھ بیان کیوں نہیں کی گئی؟ آج تک اسی کھوج میں ہیں ہم کہ برابری ہے کیا؟ اگر اسنے برابری عطا کر دی، تو اس بستی تک کیوں نہیں پہنچی؟ میں شکایت کرتی کہ یہاں کے لوگ عورت پہ ظلم کر کے اسی کو مجرم قرار دیتے ہیں۔

اگر اس دنیا کیہر  غلطی کا سہرا عورت کے سر سجنا تھا، تو کیا سوچ کہ اُس نے عورت پیدا کر دی؟ اگر پیدا کرنا ہی تھا، تو اُس کے لیے ایک الگ بستی بناتے جہاں “عورت کیعزت” صرف ایک کہاوت نہ ہوتی۔ کیوں اُس کو اِسی بستی میں بھیج دیا جہاں برابری کا لفظ خود ہی الجھاؤ کا شکار ہے؟
میں لکتھی، یہاں کے لوگ محنت کرنے والے مزدور کی عزت نہیں کرتے۔ اس کو معاشرے کا ضروری رکن نہیں سمجھتے، اُس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،اُس سے بدسلوکی کرتے ہیں پھر اُس کی بےبسی پہ ہنستے ہیں۔

یہاں کے لوگ پیسے کو خدا سمجھتے ہیں، اِس میں حلال حرام کی تمیز نہیں سمجھتے۔ میں شکایت کرتی کہاِس بستی کے لوگوں نے ادب کو، محنت اور تجربہ سے نہیں، بلکہ پیسے سے جوڑ دیا ہے۔
میں لکھتی، اس بستی میں لوگ خوش نہیں ہیں۔ مگر شاید یہ نہ ہی لکھتی۔ اوپر لکھی گئی جس غمگین بستی کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں کوئ کیسے خوش رہے گا؟ اگر اسبستی کے لوگ اوروں کے ذہن سے سوچنا چھوڑ دیں گے، تو شاید وہ وہی کریں گے جس میں ان کی ذاتی خوشی ہے۔

اگر لوگ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ ایکبستی میں سب کا ایک جیسا ہونا ضروری نہیں ہے، یہ سمجھ لیں کہ مختلف رنگوں سے بستی کا حسن دوبالہ ہوگا، اُن رنگوں کو ملا کر ایک رنگ بنا لینے سے بستی کیکشش ختم ہو جائے گی تو شاید اِن رنگوں میں بستی کے لوگوں کو خوشی نظر آنے لگے۔  
میں شکایت نامے کے آخری صفحہ پہ لکھتی، اگر بستی کے لوگوں کو عقل دی تھی، تو اسے استعمال کرنے کا کوئ کتابچہ ساتھ کیوں نہیں دیا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :