آپ جیسے ہیں ویسے ہی اچھے لگتے ہیں

پیر 24 اگست 2020

Maira Khan

مائرہ خان

میرے چہرے پہ رحمت میرے قدموں میں ہے جنت
 وفا کا وجود ہوں میں ہوئی مجھ سے آغاز محبت
زندگی کی اصلیت اور قدرتی خوبصورتی کا رنگ ہر انسان کے دل کو لبھاتا ہے ۔زمانہ ازل سے جو انسان جیسا سادہ ہے اچھا لگتا ہے اور جو اپنے آپ کو بدل بھی لے تو حسن بدل نہیں سکتا ہے ۔کاغذ کے پھول سے خوشبو نہیں آتی اسی طرح ایک عورت کا جو اصل روپ ہے وہ جس بھی روپ میں ہے پسند کی جاتی ہے ۔

دورِ جدید میں میڈ یا میں عورتوں کاکام سراہا جانا چاہیے مگر اسے جیسی وہ لگتی ہیں ہم مجبور ہو جاتے ہیں پسند کرنے لگتے ہیں اور ظاہری خوبصورتی پر تنقید اور ان کے کام کو نا پسند کر جاتے ہیں ۔ محنت کرکے کمانا اللہ کو وہ انسان بہت پسند ہے مگر ہم میڈیا پر کام کرنے والی کوئی بھی لڑکی کو عزت کا مقام نہیں دیتے بلکہ اُن کو بری نظر سے دیکھا جا تا ہے ۔

(جاری ہے)

لڑکی کا خوبصورت ہونا اور فیشن ایبل ہونا کیوں ضروری ہے ؟ کیا کالی ، موٹی ، معذور عورت یا لڑکی کو جینے کا حق نہیں ؟ کیا اس کے ساتھ پیٹ نہیں ِ؟ اگر کوئی موٹی ہے تو وہ اپنی زندگی کو مشکل میں ڈال کر ورزش ،بھوک ، وزن کی کمی کے لیے سب کر جاتی ہیں ۔ہر انسان کو زندگی جینے کا حق ہونا چاہیے ۔ہر انسان کو عزم کے ساتھ کام کرنے کا موقع میڈیا کیوں نہیں دے سکتا ہے ۔

میڈیا آزاد ہے جیسا ہے پسند کیا جانا چاہیے مگر ساتھ میں عورتوں کے کام کوجو وہ ظاہری ہے اسی پر تنقید کا نشانہ نہیں کرنا چاہیے ۔
ہے پھر بھی تماشا مجھ کو بے وفا بنا نے کے لیے
حوا کی بیٹی بنی میں آدم کو وجود میں لانے کے لیے
 ڈرامہ سیریل ” میری ذات ذرہ بے نشاں“ میں سادہ عورت اور اس کی محنت کو کوئی بھی مانتا نہیں جو اس کا ہمسفر ہے وہ بھی اس کی گواہی کو نہیں مانتا اور عورت اپنی محبت کو ثابت کرکے ساری زندگی اکیلے میں رہ لیتی ہے ۔

آخر میں یہ معاشرہ ہی عورت کو با غی کر دیتا ہے ۔
رشتے کے لیے جاب کے لیے سب سے پہلے لڑکی کی خوبصورتی کو کیوں مانا جاتا ہے ؟کیا قد میں چھوٹی لڑ کی کے پاس دل نہیں ؟ کیا رنگ کالے کے لیے کریم نہیں ؟ مگر ہمیں کسی بھی شیمپو ایڈ کے لیے و یٹ کے ایڈ کے لیے سرف کے ایڈ کے لیے لڑکی کا گورا ، پتلا اور نسوانیت سے بھر پور ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہر انسان کی طرح اسے بھی کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔


ڈرامہ ”دلربا“ میں لوگوں کے دیکھنے کی وجہ ایک لڑکی کا حسن ہے اور دوسرا سادہ لڑکی کے ساتھ ہونے والا سلوک جو معاشرہ کرتا ہے ۔ خوبصورت لڑکی کالج میں ، باہر ، رشتے داروں سب لڑکوں کو اپنی جھوٹی محبت میں گرفتار کرتی ہے مگر وہ خوبصورت اس کی بھی دو آنکھیں،نارمل قد،وہی کان ، وہی با ل پر رنگ گورا ہے اسے کیوں پسند کیا جا تا ہے ؟ جو عورت حسن کے بازار میں اپنے آپ کو سرجری سے بال کے رنگ سے آنکھوں کے لینز سے بدل جائے تو پسند کی نگاہ سے دیکھی جائے گی
مگر وہ لڑکی کو معاشرے میں بہت پسند کیا جا رہا ہے ۔

اس کے کردار پر کو ئی نہیں بات کرتا با ت ہو تو بھی یہ کہ اس کے اشارے ، باتیں ، کپڑے ، آنکھوں کا ڈیلا ہے ۔
” عورت دنیا میں ایک پیار و محبت کا تا ج محل ہے“
عورت کو وہ جس بھی رُوپ میں ہے اس کے کام کو اور اس کے کردار کو پسند کیا جانا چاہیے ۔کالی ، معذور ، آندھی ، موٹی ، چھوٹی ، عورتوں کو بھی میڈیا کے ذریعے رزق کمانے کا موقع ملنا چاہیے ۔

اُ ن کی صلاحیتوں کو سراہانا ضروری ہے ۔ باہر کے ممالک میں یہ اختلاف نہیں پا یا جا تا ہے کام کی نوعیت اور کام کرنے والی عورت کو بھی بھرپور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
” منیبہ مزاری “ کی ہمت کو سلام وہ عورت شادی کے بعد حادثے کا شکار ہوئی ، خاوند مر گیا کیا ، ٹانگوں نے ہا تھ نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔ مگر آج وہی ویل چیئر پر ہر احساس کمتری انسان کو ہمت ہی نہیں زندگی کو جینا سکھا رہی ہے ۔

لوگ حسن پر نہیں اس کی بہادری اور موت کے منہ سے نکل آنے والی منیبہ کی آواز ” آپ جیسے ہیں اچھے ہیں “ لو گوں کے لیے خود کو نہ بدلو ، اُمید اللہ سے کرو اللہ ہی حامی و ناصر ہے ۔حرا مانی کی جوڑی کو پسند کرنے کی وجہ حرا کے مظلوم کردار ہیں ۔ اس کی خوبصورتی اور ہر کردار میں سمانا ہے ۔
اس کے کروناکے لیے کیے جانے والے کام کو کوئی نہیں جا نتا بس وہ کتنا روئی ، اُسے محبت میں کیوں چھوڑا وہ ۔

جو عورت گھر سے باہر نکلتی ہے اس کی مدد نہ سہی مگر ہر جگہ اس کی نوکری کا حق نہ چھینا جا ئے ۔عورت ہر رُوپ میں ملکہ ہے اس کی خوبی کو ماننا چاہیے ۔ میڈیا میں کام کرنے کا حق دوپٹے اور بغیر دوپٹے دونوں کے لیے یکساں ہونا چاہیے ۔ٹی وی پہ آنے والی ظاہری خوبصورتی کو نہ اپنے دل سے لگایا جا نا چاہیے ۔جو دیکھتاہے وہ ہوتا نہیں ۔ اختلاف چاہے گوری اور کالی میں ہوتو حق دونوں کا یکساں ہے کیوں کہ انسانیت اور عورت کا حق ہے اُسے جینے کے لیے کسی پا رلر ،دانتوں کا ہسپتال ، سرجری کا شکار نہیں بنا نا وہ جیسی بھی ہے اچھی ہے ،خود کو منوانے کے لیے بناوٹی رنگوں باتوں پر انحصار نہ کیا جائے ۔

اُمید کرتی ہوں کہ آج کے بعد ہر عورت کو ہر جگہ کام میں ظاہری حالت ،اور بُری نگاہ سے نہیں دیکھا جا ئے گا۔
وجود ِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :