
صنفِ نازک اور ہوائی فائرنگ
جمعرات 3 اپریل 2014

منظور قادر کالرو
(جاری ہے)
شاید یہ محاورہ ایسے ہی نازک موقع پر کہا گیا ہے، جس کا کام اُسی کو ساجے۔سپاہی کی کلائی پر چوڑی نہیں سجتی اور ماہ جبیں کے پاؤں میں فوجی بوٹ نہیں سجتا۔بڑے بڑے جری پہلوان جو توپوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہے، لڑائی میں موت سے کھیلتے رہے، عورت کے ایک خنجر ابرو سے ہلاک ہوگئے۔
وہ جن کو ملک الموت بھی مارنے سے عاجز رہا اس وقت مرے جب خود ملک الموت کو کسی قتالہ عالم کے روپ میں آنا پڑا اور تیر نظر سے ان سخت جانوں کو ہلاک کرنا پڑا۔مشاہدے میں آیا ہے کہ نازو ادا کی مار زیادہ کارگر ثابت ہوئی ہے توپ اور بندوق کی مار کے مقابلہ میں۔ خدا مخفوظ رکھے حسن کے حربوں سے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ عورت اپنے کس داؤ سے شکست دیتی ہے۱ ور اس کا نقشہ جنگ کیا ہے مسکرا کے کام نکا لتی ہے ، تیوریوں پر بل ڈال کروار کرتی یا آنسو بہا کر رام کر لیتی ہے۔ عورت کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر مردِ آہن بھی موم کی صورت میں گھلنا شروع کر دیتے ہیں اور ان آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ کر چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ ماں جی بس کرو۔ بہن جی بس کرو۔بس پتری بس۔ روک لے اپنے آنسو جو تو کہتی ہے وہی ہو جائے گا مگر پر یہ رونا دھونابند کر دے۔ جب کسی مرد آہن قسم کے افسر بالا کی خدمت میں کوئی دیوی جی اپنی ساڑی کا آنچل درست کرتی ہوئی پہنچتی ہے تو وہ لاکھ یہ طے کر لے کہ یہ میرے امتحان کا پرچہ آرہا ہے اور میں اس میں کامیاب ہو کر رہوں گا۔ دیوی جی کے تبسم کو نظر انداز کر دے۔دیوی جی کے لہراتے ہوئے آنچل کو نظر انداز کر دے۔ دیوی جی کی بیچارگی کو خاطر میں نہ لائے۔ جب وہ اپنی شہادت کی انگلی کو دانتوں کے نیچے دبائے ، ساڑھی کے پلو کو انگلی کے گرد لپیٹے اس وقت بھی وہ اپنے دھڑکنے والے دل پر پیپر ویٹ ہی رکھ لے ،مگر جب ویوی جی اپنے ترکش کا آخری تیر آزماتی ہیں یعنی چشم آہو سے گرم گرم آنسو ڈھلکتا ہوا رخسار پر آتا ہے تو حاکم بالا نہایت تیزی سے حکم کے غلام بننا شروع کر دیتے ہیں۔ کسمساتے ہیں، پہلو بدلتے ہیںآ خر گھبرا کر اعتراف شکست کر لیتے ہیں کہ تم جیتیں ہم ہارے جو تم کہہ رہی ہو وہی ہوگا مگر اب یہ آنسو کسی طرح خشک کر لو اور ہمارے حال ِ زار پر رحم کھاؤ۔عورت کی اس شہ زوری سے سب ہی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ سخت سے سخت معرکے میں عورت نے اپنی آنکھ کے ایک آنسو میں نہ جانے کتنے اصول کتنے ضابطے اور کتنے قانون ڈبو کر رکھ دئیے ہیں۔ان پر امن ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے خواتین کا ڈنڈے تھام لینا اپنے صلاحیتوں سے ناواقفیت نہیں تو اور کیا ہے۔جو کام چوڑیوں کی کھنکھناہٹ سے نکل آئے اُس کے لئے پستول کی گولی کو ضائع کرنا فضول خرچی نہیں تو اور کیا ہے۔ازدواجی دہشت گردی اور چیز ہے۔اس دہشت گردی کے بطن میں بھی تھوڑا سا مان تھوڑی سی محبت چھپی ہوتی ہے لیکن بے چارے شوہروں کا سا رویہ غیروں کے ساتھ روا رکھنا یہ دہشت گردی ہے۔ اگر یہ خواتین سڑکوں پر سینہ کوبی کرنے کی بجائے اور سوئی گیس کے دفتر کے دروازے پر ڈنڈے برسانے کی بجائے افسر مجاز کے پاس اپنے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ جاتیں تو افسر مجاز کیا یہ کہنے پر مجبور نہ ہو جاتاادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
منظور قادر کالرو کے کالمز
-
اشتعال
ہفتہ 13 جون 2015
-
جذباتی گھٹن
جمعہ 27 مارچ 2015
-
موسیقار مچھر
ہفتہ 21 مارچ 2015
-
امیدیں جواں تو خزانے عیاں
جمعرات 12 مارچ 2015
-
روحانی ہریالی
اتوار 15 فروری 2015
-
ارتکازِ توجہ
جمعرات 8 جنوری 2015
-
روزو شب کی تزئین
ہفتہ 3 جنوری 2015
-
روزو شب کی تزئین
جمعرات 25 دسمبر 2014
منظور قادر کالرو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.