اکتوبر کی شام

پیر 18 اکتوبر 2021

Maryam Chaudhry

مریم چوہدری

ہوسکتا ہے اکتوبر کا مہینہ میرے لیے بھی ایک عام سا مہینہ ہوتا
ہو سکتا ہے میری اکتوبر کی ان ٹھنڈی شاموں سے کوئی آشنائی نہ ہوتی
اگر تم اس ماہ میں دنیا میں نہ آتے اور پھر دنیا کے آنے کے بعد میری زندگی میں نہ آتے۔
جانتے ہو مجھے یہ مہینہ ہمیشہ سے ٹھنڈا میٹھا محسوس ہوتا ہے۔ کبھی کسی کے چلے جانے کا غم تازہ ہوتا ہے اور کبھی کسی کے پاس نہ ہونے کا۔

۔۔ کبھی کبھی یہ محبت کے نئے کسی قیمتی تحفے جیسا لگتا ہے اور کبھی کبھی محبت کے ماتمی دنوں کی طرح لگتا ہے۔
اس شام میں نے چائے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کی کئی تلخیاں بھی گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتار رہی تھی۔ دریاۓ چناب کے کنارے اکتوبر کی شام بہت حسین لگ رہی تھی۔
یہ اکتوبر میرے لیے کسی نئے سال کے آغاز کی طرح ہے
اس روز میرے سیاہ جوڑے کی چمک دلہن کے لال جوڑے کی طرح چمک رہی تھی۔

(جاری ہے)


سورج مکھی کے ہم رنگ میرا دوپٹہ ہوا سے کبھی مشرق کی طرف اڑتا اور کبھی مغرب کی جانب۔۔۔
میرے پاؤں کی پازیب جو ہمیشہ میرے درد کو کھنکھناتی تھی اس نے درد کے سارے گھنگروں اتار کر دریاۓ چناب میں بہا دیے تھے۔
اور خوشیوں کی کھنک اوڑھ لی تھی ۔۔۔ میرے ہلکے ہلکے قدم تیزی سے اذیت سے جان چھڑوا رہے تھے۔ تمہارے جنم دن کی یہ اکتوبر کی شام میرے دل کے انتہائی قریب ہے!
میں اس دریا کو بہت قریب سے دیکھ رہی تھی جو بہت سے لوگوں کی روزی کا ذریعہ ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی کبھی اس میں ڈوبنا نہیں چاہتے۔

ہم ہمیشہ اپنا فائدہ دیکھ کر چلتے ہیں۔
یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔۔۔
دریاۓ کی کنارے بیٹھے میں اس مہربان سے ہم کلام تھی۔
سفر اتنا طویل نہیں ہوتا جتنا وقت بنا دیتا ہے
لوگ اتنے برے نہیں ہوتے جتنا ہم سمجھ لیتے ہیں
زندگی اتنی تلخ نہیں جتنی ہم محسوس کرتے ہیں
وقت کبھی برا نہیں ہوتا ہماری سوچ بدل جاتی ہے
کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا جب تک ہم کسی کا برا نہیں چاہتے لوگ اچھے ہوتے ہیں جب تک آپ خود اچھے ہوتے ہو
زندگی بہت خوبصورت ہے اسے گزارتے نہیں ہیں جینے کے حق سے جیتے ہیں ۔

۔۔
کبھی کبھی دل کرتا زندگی حساب کے سوال کی طرح ہوتی جس پر فارمولا لگاتے اور حل نکل آتا یا پھر مطالعہ پاکستان میں قائد اعظم کے چودہ نکات کی طرح جو کبھی بدلتے نہ بس یہی پڑھنا ہوتا۔۔۔
لیکن زندگی کی لکیر سے بڑا فریب کوئی نہیں ہے جہاں سمجھ آنے لگتی ہے یہ کیمسٹری بن جاتی ہے جہاں اس کی تلخیوں کو پینا شروع کر دو یہ حساب کے سبجیکٹ کی طرح مہربان ہو جاتی ہے۔

۔۔
زندگی کبھی کبھی امتحانات کے پرچے آپ کے ہاتھوں میں تھما دیتی ہے کچھ لوگ آپ کے قریب ہو کر بھی دور ہوتے ہیں پتنگ کی طرح ۔۔۔
پتنگ کی ڈوری آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور پتنگ آپ سے دور۔۔۔
پھر آپ کے حصے میں صرف کشمکش ہوتی ہے، پتنگ کے کٹ جانے کی۔۔۔
جس ڈر سے آپ فاصلے میں بھی قریب ہوتے ہو۔۔۔
مہرو نے دریا کی جانب گہرائی سے دیکھتے ہوۓ کہا۔

۔۔
جانتے ہو مجھے یہ شام کبھی اتنی خوبصورت نہ لگتی اگر تم میرے حاصل نہ ہوتے۔
مجھے دریا کے اوپر سے گزرتے ہجوم سے نفرت ہوتی ۔۔۔
دو لوگوں کے پیار سے چبھن ہوتی۔۔۔
یہ پرندے جو ایک قطار میں اڑتے ہیں ان کی پرواز سے بہت تکلیف ہوتی۔
میرا بس نہ چلتا اینٹوں کے سہارے کھڑی دیواروں کو بتاتی ان کی اوقات کیا ہے۔۔ اور تو اور دریا میں کھلکھلاتی کشتی کو اس کے بھاؤ کے ساتھ ہی بہا دیتی۔

۔۔
اچھا ہوا تم اکتوبر میں آۓ ہو اور تم نے میری شام کو حسین بنایا ہے تمہاری محبت نے میرے درد کو اکھاڑ کر پھینک دیا ہے۔
جانتے ہو مجھے موت سے زیادہ تکلیف ہوئی تھی جب جب تم نے میرے کانٹے جیسے درد کو اکھاڑ کر دریا میں بہایا تھا ۔۔۔
تمہارے نرم ہاتھوں پر بہت زخم ہوۓ تھے۔۔۔
ان زخموں نے جاتے جاتے تمہیں بھی درد دیا ہے۔۔۔
اے اکتوبر کی شام۔۔۔
تیرا شکریہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :