"اے وادیِ کمراٹ"

ہفتہ 24 اپریل 2021

Maryam Chaudhry

مریم چوہدری

مجھے آج بھی یاد ہے فاطمہ کا میسج جب اسنے انتہائی محبت سے مجھے ٹور کا بتایا تھا اور خواہش کا اظہار بھی کیا اس دفع تم بھی چلو نہ ۔۔۔ ویسے تو اسنے اتنی سی بات کی تھی مگر مجھے ابھی بھی اسکی قربت محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ اور انہی دنوں اتفاق سے ہماری ایک ملاقات بھی تھی پاک ٹی ہاؤس میں چائے پر بھی فاطمہ کہہ رہی تھی تم کوشش کرو آنے کی اور میں اپنی مجبوری کے باوجود فاطمہ کو دلاسہ دے رہی تھی میں لازمی کوشش کرتی ہوں تم فکر مت کرو۔

۔۔
فاطمہ مجھے پل پل کی خبر دیتی تھی اور میں بھی فاطمہ سے بہت کچھ پوچھتی تھی فاطمہ کب جا رہی ہو ؟ اپنا خیال رکھنا ؟ مجھے بھول مت جانا ؟ میں سچ میں نہیں آسکتی ورنہ لازمی لازمی آتی فاطمہ میرے سے اپنی مایوسی چھپا کر مان جاتی تھی چلو کوئی بات نہیں مگر حقیقت میں ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے اپنی بےبسی چھپا تے تھے اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک دوسرے کی مجبوری بھی سمجھ لیتے تھے اور خدا کی کُن پر متفق ہو جاتے تھے فاطمہ اور میری دوستی کے آگے شاید یہ دوست نام کی چیز بھی اکثر پریشان ہو جاتی تھی یا اسکو خود پر شرمندگی ہوتی ہے یا رشک ۔

(جاری ہے)

۔۔
خیر ہم دونوں بھی دیکھتی  تو دوست ہیں مگر دوستی سے بھی بڑھ کر کوئی رشتہ ہے فاطمہ سے مجھے اس لیے شدید محبت ہے میرا اور اس کا تعلق قلم سے منسلک ہے اور کہتے ہیں آپکا قلم آپکو بہت خاص نعمتوں سے نوازتا ہے اور میرا اور فاطمہ کا قلم تھا جو ہم دونوں کو اتنا قریب لے آیا ۔۔۔
خیر ستمبر میں فاطمہ نے ٹور پر جانا تھا میں فاطمہ کے ٹور کو لے کر پریشان بھی تھی کیوں کے ان دونوں موسم بہت خراب تھا اور پہاڑی علاقوں میں حد سے زیادہ حالات خستہ تھے میں نیوز سن کر اچانک سے ڈر گئی فاطمہ تم پلیز خیال سے جانا حالات بہت خراب ہیں ۔

۔۔ میرا دل چاہ رہا تھا فاطمہ کو منع کر دوں۔۔۔
مريم ہم نہیں جا رہے حالات بہت خراب ہیں ٹور کینسل کر دیا ہے ۔۔۔ فاطمہ کا یہ میسج پڑھ کر میں کچھ مطمئن ہو گئی مگر میرے دل میں فاطمہ کی اداسی اتر آئی تھی پہاڑوں سے عشق کرنے والی لڑکی  کا دل ٹوٹ گیا اس نے تو پہاڑوں سے وعدہ کیا تھا اور اب تو وادی کمراٹ کے پہاڑ بھی اس کے منتظر تھے۔۔۔
مگر قدرت نے بھی فاطمہ کو سرپرائز دیا اور بلاخر  فاطمہ کا خواب ایک بار پھر اپنی تعبیر پارہا تھا موسم کی بہتری کے ساتھ ہی فاطمہ پہاڑوں کی قربت محسوس کر رہی تھی ۔

۔۔
میں بہت مایوس تھی کے فاطمہ کے ساتھ نہیں ہوں مگر اس اداسی کا احساس فاطمہ کو بھی نہیں ہونے دیا ۔۔۔
" اے وادیِ کمراٹ" میری زندگی کا پڑھنے والا پہلا سفر نامہ  ہے جب تک یہ سفر نامہ پڑھا نہیں ایسا ہی لگتا تھا کمراٹ صرف فاطمہ گئی تھی مگر پڑھ کر محسوس ہوا جیسے فاطمہ کے ساتھ میں بھی تھی ۔۔۔
دریا محبت سے جیسے فاطمہ نے ڈھیر باتیں کی ہوں اور ہاں کیوں نہ کی ہوں یقینناً کی ہوں گی محبت تو خوشبو کی طرح ہوتی ہے بکھر سی جاتی ہے ۔

۔۔ کتاب پڑھ کر ایسا ہی لگتا ہے جیسے ہم وادی کی سیر کر رہے ہیں دریاۓ محبت نے کتنی ہی باتیں کی ہوں ہم سے ۔۔۔ میں نے یہ پہلا سفر نامہ پڑھا اور بہترین پایا ۔۔۔ سب سے خوبصورت بات تو یہ ہے اس کتاب پر معروف  رائیٹر مستنصر حسین تارڑ صاحب کا تبصرہ ہے جو اس سفر نامہ کی زینت بنا یہ داستان محبت سے بھرپور ہے ۔۔۔ نا جانے کتنی ہی دیر فاطمہ دریا کے پانی سے اظہار وفا کرتی رہی ۔

۔۔ کتنی ہی دیر دریا کی محبت سے ہم کلام رہی ۔۔۔ اور فاطمہ نے انتہائی خوبصورتی سے منظر کشی کی کتاب کے آخری صفہ تک محسوس ہوا جیسے ہم وادی میں فاطمہ کے ساتھ موجود ہیں فاطمہ نے بہت خوبصورت مناظر کو لفظوں میں بن کر چار چاند لگا دیے قدرت کے وہ مناظر جو اپنی مثال آپ ہیں ان پر لکھنا انتہائی کمال کا ہنر ہے ۔۔۔
اور یہ ہنر فاطمہ کو خوب آتا ہے ۔۔
میں دعا گو ہوں اللّه فاطمہ کے علم میں اضافہ فرماۓ اور مزید لکھنے کا ہنر آتا کرے ۔۔۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :