
امریکا کا جنگی جنون… عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ
ہفتہ 6 جون 2015

مولانا شفیع چترالی
زندگی تاریک سے تاریک تر ہوتی گئی
اپنے افکار کی دنیا میں سحر کر نہ سکا
(جاری ہے)
خود امریکا کی ایک یونیورسٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں دہشت گردی کی امریکی جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے جن ڈیڑھ لاکھ افراد کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے شاید ہی کسی کا نائن الیون کے واقعات اور امریکا پر ہونے والے حملوں سے کوئی دور کا تعلق بنتا ہو۔ امریکا نے نائن الیون کے واقعات کے بعد محض اندھے جذبہٴ انتقام کے تحت اور سراسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طورپر افغانستان جیسے تباہ حال ملک کو صرف اس وجہ سے تاراج کرکے رکھ دیا کہ وہاں اس وقت ایک اسلامی حکومت قائم تھی۔ امریکا نے دنیا کے 40 ممالک کی بہترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس افواج کے ساتھ افغانستان کے بے سروسامان عوام کو جارحیت کا نشانہ بنایا، لیکن آج چودہ برس گزرنے کے بعد وہ وہاں سے اس حال میں انخلا کررہا ہے کہ اسے اس طویل جنگ میں شکست وہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور اس وقت اسے افغانستان سے باعزت واپسی کے لیے کوئی بہانہ بھی نہیں مل پارہا۔ افغانستان کی جنگ درحقیقت امریکا اور مغرب کے لیے سراسر شرمندگی اور ندامت کا ایک باب ہے، جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔
قتل و خوں ریزی کی اس مہم پر انسانیت کے وسائل جس بے دریغ طریقے سے جھونکے گئے، اس بارے میں ہوش ربا اعداو شمار سامنے آتے رہے ہیں۔ چنانچہ چند ماہ قبل سامنے آنے والی ایک امریکی اخبار TheEpochTimesکے مطابق عراق، افغانستان، اور پاکستان میں جاری جنگوں پرامریکی اخراجات 4.4 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، جب کہ6لاکھ افراد ان جنگوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جن میں 3لاکھ 50ہزار افرا د براہ راست جنگی کارروائیوں کا شکار ہوئے، جب کہ ڈھائی لاکھ ایسے افراد بھی موت کے منہ میں چلے گئے جنہیں ان جنگوں سے پیدا شدہ مسائل کی وجہ سے غذائی اور صحت کی سہولتوں تک رسائی نہ مل سکیں۔ پاکستان میں 2004سے 52 ہزار پاکستانی شہری اس جنگ میں جاں بحق ہوئے، جب کہ50ہزار سے زاید زخمی ہوئے۔ عراق پر جنگی اخراجات 2.1ٹریلین ڈالر، جب کہ افغانستان اور پاکستان میں جنگی اخراجات 2.15ٹریلین ڈالر ہوئے۔ امریکا کوان جنگوں کے لیے حاصل قرض پر آیندہ 40برس میں 8ٹریلین ڈالر سود ادا کرنا پڑے گا۔ امریکی تھنک ٹینک PROJECTSCOSTS OF WAR کے اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں میں عام شہریوں کے علاوہ امریکی فوجی، کنٹریکٹرز، امریکی اتحادی فوجی، سیکورٹی فورسز اور وہ لوگ شامل ہیں جنہیں امریکاعسکریت پسند اوردہشت گرد قرار دیتا ہے۔
اقتصادیات کے عالمی ماہرین کے مطابق امریکا نے نائن الیون کے بعد جتنے وسائل جنگوں پر لگائے، اگر ان کا نصف بھی دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک میں تعلیم، صحت اورفلاح عامہ پر خرچ کیا جاتا تو شاید آج دنیا کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا۔ 4.4ٹریلین ڈالرز کی رقم شاید پورے بر اعظم افریقہ کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہو۔ انسانیت کے اتنے خطیر وسائل جس مقصد کے لیے صرف کیے گئے، اس کی حقیقت خودامریکی وزیرخارجہ جان کیری کے اس بیان سے معلوم کی جاسکتی ہے، جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ عراق جنگ امریکا کی سنگین غلطی تھی جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل چینی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ا نہوں نے سابق صدر بش کے دور میں ہی اس فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔ تقریبا ًیہی صورت حال افغانستان کی ہے، جہاں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو14سال کی خجل خواری کے بعد بے نیل مرام واپس ہونا پڑرہا ہے اور اور امریکا اور اس کے اتحادی اپنی غلطی تسلیم کرکے شکست قبول کرنے کی بجائے افغانستان کو بھی خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم اور جنگی جنون کا نشانہ کوئی ایک ملک یا خطہ نہیں، بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
امریکا اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دنیا کے مختلف ممالک کی جاسوسی پر صرف کرتا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کو پاکستان سمیت 193ممالک اور ان کی متعدد جماعتوں کی جاسوسی کی اجازت حاصل ہے۔ منحرف خفیہ امریکی ایجنٹ ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے افشا کی گئی دستاویزات کے مطابق فارن انٹیلی جنس سرویلینس کورٹ کی طرف سے 2010ء کی قانونی دستاویزات کی منظوری دی گئی، جس کے مطابق امریکی کمپنیوں کے ذریعے این ایس اے جاسوسی کرسکتی ہے۔ تمام ممالک میں امریکی ایجنسی کے کمپیوٹر خود کار طریقے سے فون کالوں کی چھان بین کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010ء کی ان خفیہ دستاویزات کے مطابق این ایس اے دنیا بھر میں کہیں بھی امریکی اہداف کے متعلق گفتگو ریکارڈ کر سکتی ہے، جب کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یورپی یونین اورعالمی توانائی ایجنسی بھی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جاسوسیوں سے محفوظ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پوری دنیا کو اپنی کالونی سمجھتا ہے اور کوئی بھی ملک اس کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکا کی یہ توسیع پسندانہ سوچ اور جنگی جنون عالمی امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر دنیا کو شرو فساد، جنگوں اور کشت و خون کے عذاب سے بچانا ہے تو عالمی برادری کو امریکا کے جنگی جنون کا کوئی علاج تلاش کرنا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مولانا شفیع چترالی کے کالمز
-
”آزادی مارچ“۔۔امکانات اور خدشات
بدھ 18 ستمبر 2019
-
جرأت کا نام … حضرت مولانا سمیع الحق شہید
پیر 5 نومبر 2018
-
مستقبل کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ
جمعرات 21 جون 2018
-
کوئی نسبت تو ہوئی رحمت عالم سے مجھے!
جمعہ 12 جنوری 2018
-
نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا رومانس اور لڑائی!
منگل 22 اگست 2017
-
یہ علامتیں ہیں ثبوت نہیں
بدھ 12 جولائی 2017
-
ایک روشن کردار
جمعہ 28 اپریل 2017
-
علماء کی سیاست… کل اور آج
جمعرات 30 مارچ 2017
مولانا شفیع چترالی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.