آنکھو ں کے اندھے بمقابلہ عقل کے اندھے

ہفتہ 6 دسمبر 2014

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

کل شب میں نے اپنے ٹی وی کا بٹن آن کیا تو سکرین پر پنجاب پولیس کو ظلم و بربریت کی روائیتی داستان رقم کرتے ہوئے دیکھا۔ اندھے اور نابینا افراد اپنے عالمی دن کے موقع پر صوبائی دارالحکومت میں پلے کارڈز اٹھائے ہوئے سڑکوں پر موجود تھے جن کی زبان بندی کی غرض سے ہماری جیالی اور بہادر پولیس ان نابینا افراد پر ڈنڈے برسا رہی تھی۔ یقین جانیئے کہ پولیس کا ہر ہر ڈنڈا مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی میرے کلیجے پر خنجر اور برچھیوں کے وار کر رہا ہو۔

میرے ساتھ ساتھ ہر وہ ناظر جو درد شناس دل اور آنکھیں رکھتا ہو گا ، ضرور خون کے آنسو رویا ہوگا۔
مثل مشہور ہے کہ بندر کو اگر ماچس پکڑا دی جائے تو وہ جنگل کو آگ تو ضرور لگائے گا۔ ایسا ہی حال ہماری نام نہاد ڈسپلنڈ پولیس کو بے جا اختیارات سے نوازنے کا ہے۔

(جاری ہے)

پنجاب پولیس نے آئین و قوانین پاکستان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جس طرح انسانی جذبات کا خون کیا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔


پنجاب پولیس کے ہاتھوں آنکھیں رکھنے والوں پر ظلم و ستم کا ہونا تو برسوں سے چلا آرہا ہے جس کی بے شمار مثالیں تاریخ میں موجود ہیں لیکن اندھوں اور نابینا افراد پر پولیس کا تشدد دیکھ کر تو پولیس کے اس کالے کرتوت پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔اندھے اور معذور افراد اپنے حقوق کی بحالی کے لیے احتجاج کر رہے تھے جو کہ ان کا قانونی اور آئینی حق تھا لیکن پولیس نے ان کی آواز کو بند کرنے کے لیے ان پر ڈنڈے برسا کر ان کو عالمی دن پر تحفہ پیش کیا۔

اس منظر کو دیکھتے ہوئے فیض احمد فیض کے کچھ اشعار میرے ذہن میں گونجنے لگے۔
نثار میں تیری گلی کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
سوچنے کی بات ہے کہ ہماری پولیس کو آخر ان نابینا اور معذور افراد سے کیا خوف لاحق تھا جو ان پر اس طرح سے ظلم کیا گیا۔

کیا ان سپیشل افراد نے اپنی سفید چھڑیوں میں بندوقیں فٹ کروا رکھی تھیں؟ کیا انہوں نے اپنے جسموں پر بارودی خود کش جیکٹیں پہن رکھی تھیں؟ کیا یہ کسی عمارت کو مسمار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے؟ کیا یہ لوگ آتش زدگی کر سکتے تھے؟ کیا یہ لوگ پولیس پر پتھراؤ کر سکتے تھے؟ اگر نہیں تو پھر ان معصوم اور مظلوم لوگوں پر پولیس کی یہ بر بریت اور بدمعاشی۔

۔۔ کس لیے؟
مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری پولیس نے ان اندھے اور معذور افراد پر ظلم و تشدد کرکے خود کو عقل کے اندھے ثابت کر دکھایا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں سپیشل افراد کے عالمی دن پر ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ان کے متعلق اپنے دل میں نرم گوشہ پیدا کیا جاتا ہے، وہاں ہمارے ملک میں ان بے چاروں کو ڈنڈوں ، دھکوں اور زخموں کے نذرانے پیش کیے گئے ہیں۔


اس سلسلے میں وزیر اعلی پنجاب کا ذمہ داران کے خلاف ایکشن لینے اور مظلوم افراد کے تمام مطالبے یکسر مان لینے کا رویہ بہت قابل تحسین ہے۔
اس غیر معمولی واقعہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا وقار مجروح ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے تمام بدمعاشوں کو ان کے حقیقی انجام تک پہنچائیں تا کہ ایسے سپیشل افراد کو بھی آزادانہ جینے کا پورا پورا حق حاصل ہو۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری عجب وقت آن پڑا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :