
مِیرا کی شاعری اور میرا مشورہ
اتوار 15 فروری 2015

محمد افضل شاغف
میرے مشاہدے کے مطابق چند سال قبل سے لیکر اب تک مِیرا کے سامنے اس کی سب سے بڑی پرابلم اُس کی شادی کا نہ ہونا ہے ۔
(جاری ہے)
اس میں کو ئی شک نہیں کہ نو عمری میں شہرت حاصل کرنے والی عصرِ حاضر کی اداکاراؤں میں مِیرا بھی ایک ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ مِیرا کی شہرت سے مرعوب ہو کر اس سے شادی کرنے کا خواب دیکھ لیتے ہوں اور پھر اچانک کسی دِن سوشل میڈیا پر چلنے والا مِیرا کا ”کلِپ “بھی دیکھ لیتے ہوں اور شادی کروانے سے توبہ کر لیتے ہوں ۔ اور مِیرا یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہوں ۔
کوئی صورت نظر نہیں آتی
فرض کریں مِیرا شاعری میں ہاتھ پاؤں مرنا شروع کر ہی دیتی ہیں تو سب سے پہلے تو ہر ملنے ملانے والے کو ایک دن قبل فون کر کے بتا ئیں گی اور ممکن ہے کہ پریس کانفرنس بھی کر دیں کہ ”کل ہم شاعری کریں گے “۔تمام دن شاعری کرنے کے لیے کاغذ قلم لے کر بیٹھی رہیں گی اور شام تک بمشکل کوئی ٹوٹا پھوٹا شعر ان سے بن پائے تو بن ہی پائے ۔ کیونکہ مِیرا صاحبہ کو ابھی یہ معلوم نہیں کہ شاعری کسی اہتمام سے نہیں ہوتی بلکہ کسی الہام ، وجدان یا آمد کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اُٹھتے ، بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے ، کسی بھی وقت اس کا نزول ممکن ہے ۔ بہر حال بفرض محال مِیرانے شاعری شروع کر ہی لی تو اس کی نظموں کے مو ضو عات کچھ یوں ہوں گے : ”ہوٹل میں “،”جب امی نے الیکشن ہارا “ ،” شبِ وصل۔۔ پر شادی کہاں “، ” میری شادی کرواؤ “، ”دھوکے باز مرد “، بلینک چیک “،”وہ تکیے پہ خوش آمد یدلکھنا“، ”اب بس “ وغیرہ وغیرہ ۔
شاعری میں قافیہ پیمائی ، معاملہ بندی اور صنعتوں کا استعمال کچھ اس انداز سے نظر آ سکتا ہے کہ جس سے بڑے بڑے شعراء کے دل جلیں اور دنیا سے پردہ کر جانے والے شعراء کی روحوں کو تکلیف پہنچے ۔ اور اگر مِیرا کی کتاب مارکیٹ میں آجاتی ہے تو ان کی شاعری پڑھ کر کئی لوگ پاگل ہو سکتے ہیں یا پھر کم ازکم نفسیاتی مریض تو ضرور ہوں گے ۔ مجھے وہ وقت آج با ربار یا د آرہا ہے جب میں FM-88پر پروگرام کیا کرتا تھا اور میرے قریب ہی میرے بہت محترم چاچا یوسف بھی بیٹھ کرمجھے سنا کرتے تھے ۔ میز پر شاعری کی کافی کتابیں موجو د ہوا کرتی تھیں جن میں سے ایک کتاب شاعرہ (نام لکھنا مقصود نہیں ) کی تھی ۔ ایک دن چاچا یوسف نے وہ کتاب اٹھا ئی اور خاموشی سے پڑھتے رہے ۔ پرو گرام ختم ہونے پر مائیک بند ہوا تو چاچا نے کتاب زور سے میز پر پٹخ دی اور کہا ” اِک آنے دے کم دی شاعری نئیں ایس کڑی دی“ ۔
مِیرا صاحبہ کو میرا مشورہ یہی ہے کہ اگر کسی نے ان کی اداکاری یا انگریزی سے متاثر ہو کر اب تک ان سے شادی نہیں کی تو اُن کی شاعری کسی کو شادی پر اکسانے کا موجب کبھی بھی نہیں ہو سکتی ۔ انہیں چاہیئے کہ وہ اپنے اندر وہ جو ہر اور صلا حیت پیدا کریں کہ پروانہ خود بخود شمع پر آن مِٹے :
اُدھر دیکھیں ہے جاتا یا اِدھر پروانہ آتا ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد افضل شاغف کے کالمز
-
مِیرا کی شاعری اور میرا مشورہ
اتوار 15 فروری 2015
-
شرم تم کو مگر نہیں آتی
جمعہ 30 جنوری 2015
-
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے
اتوار 18 جنوری 2015
-
قاری کی بدکاری
جمعرات 8 جنوری 2015
-
آنکھو ں کے اندھے بمقابلہ عقل کے اندھے
ہفتہ 6 دسمبر 2014
-
ریلوے کیبن سے
جمعہ 14 نومبر 2014
-
اقبال ۔۔۔۔۔ ایک حقیقی عاشق رسول
پیر 10 نومبر 2014
-
میٹرو بس اور گدھوں کا گوشت
جمعہ 31 اکتوبر 2014
محمد افضل شاغف کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.