انجام ابھی باقی ہے!

پیر 7 اگست 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

بات یہاں رکنے والی نہیں۔نواز شریف کے خلاف جو کیسز چل رہے ہیں اور ان کے جرائم کی جو فہرست ہے اس کے پیش نظر نواز شریف کی نا اہلی ایک چھوٹی سی بات ہے ، جبکہ بات کسی صورت ان کی پھانسی،جلاوطنی یا کم از کم سیاست سے بے دخلی سے کم پر نہیں رکے گی۔ بات کی وضاحت کے لیے آپ کو ماضی میں جانا پڑے گا۔ اگر آپ موجودہ سیاست کو ستر کی دہائی کی عینک لگا کر دیکھیں تو آپ کو ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف میں انتہا درجے کی مماثلت نظر آئے گی۔

ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ابھرتے ہوئے لیڈر تھے ، انہو ں نے پاکستان کے مفاد میں کچھ ایسے موقف اپنائے جو عالمی طاقتوں کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں تھے ۔اس کا نتیجہ کیا نکلا ، اسلامی اتحاد کی صورت میں آل پارٹیز کے نام سے اتحاد بنا اور یہ اتحاد بھٹو اور اس کے ویژن کو کھا گیا ۔

(جاری ہے)

اس کے بعد کیا ہوا دنیا جانتی ہے۔بھٹو کو پہلے مری منتقل کیا گیا،پھر وہ ٍجیل گئے ،انہوں نے عدالتوں کے دھکے کھائے اور آخر میں ان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا ۔

بھٹو اگرچہ بہت بڑا لیڈر تھا ،وہ پاکستان کو ایشیا ء کا ٹائیگر بناناچاہتا تھا اور اس نے لاہو ر میں عالمی اسلا می سربراہی کانفرنس بلا کر پاکستان کو عالم اسلا م کا ہیرو بنا دیا تھا ،اگرچہ وہ پاکستان کے ایٹمی بم کا خالق تھا اور کہا کرتا تھا ہمیں گھا س کھا کر بھی گزارا کر نا پڑا تو کر لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے، اور وہ پاکستان میں ورلڈ اسلامک بنک قائم کر کے ساری اسلامی دنیا کا سرمایہ پاکستان میں اکھٹا کر نا چاہتا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے جرائم کی فہرست بہت طویل تھی۔

مثلا اس کے جرائم میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ سر عام کہا کر تا تھا ”ہاتھی مجھ سے ناراض ہے “ہم نے عربوں کو ہتھیار سپلائی کیے ،ہم نے ایٹمی پلانٹ پر قومی مفاد کے مطابق فیصلہ کیا اور ہم ویت نام اور مشرق وسطٰی کے مسئلے پر اپنے موٴقف پر قائم رہے اس لیے ”ہاتھی مجھے دھمکیاں دیتا ہے “بھٹو کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ اس نے ویت نام جنگ میں چین کی اخلاقی مدد کی تھی اور ہاتھی کا موٴقف ماننے سے انکار کر دیا تھا ،مثلا وہ کہا کرتا تھا ” ہاتھی کا حافظہ بڑا تیز ہے یہ میرا جرم معاف نہیں کرتا ،میں نے چین سے تعلقات بہتر بنائے تو یہ میرا دشمن ہو گیا ،میں نے عربوں کی سیاسی اور فوجی حمایت کی ہاتھی برا مان گیا ،میں نے اسلا می سر براہی کانفرنس بلا نے کا اعلان کیا ہاتھی نے اسے ایک ماہ ملتوی کرنے کا کہا ،میں نے کر دیا ،میں نے ایک ماہ بعد دوبارہ کانفرنس بلا نے کا ارادہ کیا ہاتھی نے پھر ملتوی کرنے کا کہا میں نے پھر کر دیا ،لیکن جب ہاتھی نے تیسری بار ملتوی کر نے کا کہا تو میں سمجھ گیا اور شاہ فیصل کو اعتماد میں لے کر کانفرنس بلا نے کا اعلا ن کر دیا اور یوں ہاتھی ایک بار پھر میرا دشمن بن گیا “مثلا بھٹو کہا کر تا تھا ”ہم نے یونان اور ترکی میں صلح کرائی ہاتھی کو اچھا نہیں لگا ،کو ریا نے اپنا تنازعہ ختم کر نے کے لیے ہم سے رابطہ کیا تو ہاتھی ہمارے بڑھتے ہو ئے قد سے جیلس ہو نے لگا “مثلا بھٹو کہا کرتا تھا ”شکاری کتے میرے خون کے پیاسے سب سے ذیادہ اس وقت ہو ئے جب ہم نے فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ کا معاہدہ کیا اور اس کے بعد تو مجھے سر عام دھمکیاں دی گئیں کہ ہم تمہیں عبرتنا ک مثال بنا دیں گے “بھٹو کے یہی وہ جرائم تھے جن کی وجہ سے اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکاناضروری تھا۔

اب آپ 2013میں آ جائیں اورنواز شریف کی سیاست کا تجزیہ کریں ۔2013کے آغاز سے ہی نواز شریف نے بھی وہ غلطیاں دہرانی شروع کر دی تھیں جن کا ارتکاب بھٹو نے کیا تھا ، مثلا نواز شریف نے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا جو عالمی طاقتوں کو کبھی ہضم نہیں ہو سکتا تھا، مثلا نواز شریف نے اصولوں کی سیاست شروع کی ، مثلا نواز شریف نے احتجاج کا جواب تحمل اور اپنی پر فارمنس سے دیا، مثلا نواز شریف نے سعودیہ یمن تنازع پر غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اپنائی، مثلا نواز شریف نے پرویز مشرف کا احتساب شروع کیا ، مثلا نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ کو اپنی اوقات میں رہنے کی ہدایت کی ، مثلا نواز شریف نے عالمی طاقتوں سے ڈکٹیشن لینے سے صاف انکار کر دیا، مثلا نواز شریف نے ملک بھر میں میٹرو اور موٹر وے شروع کرنے کا اعلان کر دیا، مثلا نواز شریف نے پر امن ہمسائیگی کی بات کی ، مثلا نواز شریف نے معاشی استحکام کی پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

یہ سب وہ جرائم تھے جن کی بنیاد پر نواز شریف کی نااہلی لازمی ہو چکی تھی ۔ اگر نواز شریف کو فوری طور پر نااہل نہ کیا جاتا تو یہ اپنے ویژں 2025میں کامیاب ہو جاتااور پاکستان دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرتا ، دوسری طرف ن لیگ پاکستان کی مقبول جماعت بن جاتی اور یہ سب باتیں عالمی اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے لیے ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں تھیں۔

لہذا وہی ہوا جو ہانا چاہیے تھا۔یہ بھٹو اور نواز شریف کے وہ سنگین جرائم تھے جن کی وجہ سے انہیں منظر عام سے ہٹانا ضروری وہ گیا تھا۔ جب کہ بھٹو اور نواز شریف کے مقابلے میں ایوب، یحیٰ ، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے جرائم بہت چھوٹے اور انتہائی” معمولی “نو عیت کے تھے اس لیے انہیں ہمیشہ ادب اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے ،مثلا مشرف نے صرف ایک منتخب جمہوری حکو مت کو برطرف کیا تھا ،مثلا اس نے صرف ایک منتخب وزیراعظم کو جیل بھیجا تھا ،مثلا اس نے صرف آئین تو ڑا تھا ،اس نے صرف آئین سے بغاوت کیا تھی ،اس نے صرف رفیق تارڑ کو زبر دستی ایوان صدر سے رخصت کیا تھا ،وہ صرف 2004میں وردی اتارنے کے وعدے سے مکرا تھا ،اس نے صرف ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی ،اس نے صرف تین چار سو بندے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے تھے ، اس نے پاکستان کے اڈے امریکہ کے حوالے کر کے صرف آٹھ دس لاکھ افغانوں کو شہید کروایا تھا ،اس نے صرف چیف جسٹس سمیت پچاس ساٹھ ججز کو نظر بند کیا تھا ،اس نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر حملہ کر کے صرف چو دہ پندرہ سو طلباء و طالبات کو شہید کروایا تھا ، مثلا مشرف نے ایل ایف او بھی ایجاد نہیں کیا تھا ،اس نے 2002کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو بھی نہیں توڑا تھا ، اس نے نام نہاد ریفرنڈم بھی نہیں کروایا تھا اور اس میں 96 فیصد ووٹ بھی حاصل نہیں کیے تھے ،اس نے پاکستان کے ہیرو ز کو گرفتار اور نظر بند بھی نہیں کیا تھا ،اس نے شمالی اور جنوبی وزیرستان پر فوج کشی کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی بنیاد بھی نہیں رکھی تھی ،اس نے بگٹی کو بھی نہیں اڑا یا تھا اور اس نے بلوچوں کے دلوں میں نفرت کی آگ بھی نہیں بھڑکا ئی تھی ،اس نے سپریم کو رٹ کے حکم کے باوجود نواز شریف کو گھسیٹ کر طیارے میں بھی نہیں دھکیلا تھا ،اس نے ایک ہی اسمبلی سے دوسری بار صدر منتخب ہو نے کی کو شش بھی نہیں کی تھی اور اس نے اپنے لیئے آئین کی دفعہ 63ون توڑنے کی بھی کو شش نہیں کی تھی ۔

چونکہ یہ جرائم جرم شمار نہیں ہوتے لہذا مشرف آج دنیا بھر میں آزادانہ گھومتا پھرتا ہے لیکن اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد بات ختم ہو گئی ہے وہ لکھ لیں کہ پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے، نواز شریف کے جرائم کی جو فہرست ہے اس کے پیش نظر یہ معاملہ رکتا نظر نہیں آ رہا ، اگر نواز شریف کا انجام بھٹو جیسا نہ بھی ہوا تو کم از کم اتنا ضرور ہو گا کہ وہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے آوٹ کر دیے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :