انسان کی اوقات !

پیر 13 نومبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

وہ تھوڑی دیر کے لیے رکے ، گہری سانس لی ، موٹے شیشوں والا چشمہ اتار کر زمین پر رکھا اورگرم قہوے کا گھونٹ بھرکر میری طرف متوجہ ہوئے: ” اگر تم زمینی سیارے کی حقیقت جاننا چاہو تو تمہیں ایک مشاہدہ بتاتا ہوں ، تم واپس جا کراپنے گھر میں کسی ایسے کمرے کو تلاش کرنا جس کا روشن دان سورج کی طرف ہو اور عین اس وقت جب سورج کی کرنیں روشن دان سے کمرے میں داخل ہو رہی ہوں تمہیں ں نظر آئے گا کہ وہ کرنیں کمرے میں روشنی کی ایک لکیر بنا رہی ہوں گی ، روشن دان جتنا بڑا ہو گی وہ لکیر اسی حساب سے بنے گی، اس لکیر میں آپ کوہزاروں لاکھوں چھوٹے چھوٹے ذرات فضا میں گردش کرتے نظر آئیں گے ، یہ ہزاروں لاکھوں ذرات فضا میں گردش کرنے والے سیارے ہیں اور ہماری زمین بھی ان میں سے ایک ذرہ ہے اور یہ صرف ایک کہکشاں کے سیارے ہیں جبکہ کائنات میں اس جیسی اربوں کھربوں کہکشائیں بکھری پڑی ہیں “ میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا ، میں نے دونوں ہاتھ بغل میں دبائے اورآنکھیں ان کے چہرے پر گاڑ دیں ، وہ گویا ہوئے ”معلوم انسانی تاریخ اور اب تک حاصل شدہ علم کے مطابق ان اربوں کھربوں کہکشاوٴں میں صرف زمین ایک ایسا سیارہ ہے جس پر زندگی کے اثرات موجود ہیں اور زمین کی اپنی حقیقت بڑی حیران کن ہے ، اگر ہماری زمین کا حجم موجودہ حجم سے کم ہوتا تو زمین کی کشش ثقل کم ہو جاتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہماری زمین پر ہوا اور پانی ناپید ہو تے اور انسانی زندگی کا وجود ناممکن ہوتا ۔

(جاری ہے)

اور اگر زمین کا حجم موجودہ حجم سے ذیادہ ہوتا تو اس سے زمین کی کشش ثقل دگنی ہوجاتی اور انسانی زندگی کی بقا ناممکن ہو جاتی ۔ ایک طرف زمین کی غیر معمولی کشش اور دوسری طرف ہوا کے دباوٴ نے ہمیں معتدل رکھا ہوا ہے ، بظاہر ہم زمین کے اوپر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم زمین کے نیچے سر کے بل لٹکے ہوئے ہیں ، اس کی شکل یہ بنتی ہے کہ زمین فضا میں معلق ایک گیند ہے جس کے چاروں طرف انسان لٹکے ہوئے ہیں ، پھر یہ زمین ٹھہری ہوئی نہیں بلکہ ایک ہزا ر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل گھوم رہی ہے ، اب ایسی حالت میں انسانوں کی حالت یہ بنتی ہے کہ ایک پہیا ہے اوراس پر چاروں طرف گول کنکریاں رکھ کر اس پہیے کو گھمادیا جائے تو وہ سب دور دور بکھر جائیں گی لیکن انسانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہو رہا ، کیوں ؟ اس کی وجہ ہوا ہے ،ایک اوسط آدمی کے جسم پر تقریبا تین سو من تک ہوا کا دباوٴ ہوتا ہے جو اسے معتدل رکھتا ہے ، یہ دباوٴ محسوس نہیں ہوتا کیونکہ یہ دباوٴ چاروں طرف ہوتا ہے باالکل ایسے جیسے پانی میں غوطہ لگانے سے سارا پانی ہمارے اوپر ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کا دباوٴ محسوس نہیں ہوتا ۔

“انہوں نے قہوے کا آخری گھونٹ بھرا ، کپ زمین پر رکھا اور دوبارہ گویا ہوئے ” ہماری زمین ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے ، اگر اس کی یہ رفتار کم ہو کر پانچ سو میل فی گھنٹہ ہو جائے تو ہمارے دن اور راتوں میں حیرت انگیز اور ناقابل برداشت تغیر آ جائے ، ہمارے دن کی لمبائی کئی دنوں تک بڑھ جائے اور ہماری رات کئی راتوں جتنی لمبی ہو جائے ، گرمیوں کا سورج تمام نباتات کو جلا کر رکھ دی اور سردیوں کی راتیں اتنی ٹھنڈی ہو جائیں کہ انسان اور نباتات سردی سے مر جائیں ۔

سورج سے زمین کا فاصلہ تقریبا نو کروڑ تیس لاکھ میل ہے اگر یہ فاصلہ آدھا رہ جائے تو ساری زمین کو جلا کر راکھ کر دے اور اگر یہ فاصلہ دگنا ہو جائے تو زمین اتنی ٹھنڈی ہو جائے کہ اس پر زندگی کے آثار باقی نہ رہیں ۔ زمین تئیس درجے کے زاویے پر فضا میں جھکی ہوئی ہے ، اس جھکاوٴ سے موسم بنتے ہیں اور زمین کا ذیادہ حصہ آباد کاری کے قابل ہو گیا ہے ، اگر زمین اس طرح جھکی ہوئی نہ ہوتی تو قطبین پر ہمیشہ اندھیرا چھایا رہتا اور زمین پر یاصرف برف ہوتی یا صحرائی میدان ۔

سائنس کہتی ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے زمین اور سورج اکٹھے تھے پھر اچانک ایک دھماکہ ہوا اور زمین سورج سے الگ ہو گئی ، اگر یہ حقیقت ہے توپھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ماضی میں کبھی زمین کا درجہ حرارت بھی وہی رہا ہو گا جو آج سورج کا ہے اور یہ بارہ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ بنتا ہے ، اس کے بعد زمین آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اور جب یہ چار ہزار فارن ہائیٹ تک ٹھنڈی ہو گئی تو اس پر ہائڈروجن اور آکسیجن کا ظہور ہوا ، ان دونوں گیسوں کے باہم ملنے سے پانی بنا اور اس طرح لاکھوں کروڑوں سالوں تک زمین پر مختلف عمل جاری رہے تاآنکہ ایک ملین سال پہلے زمین اپنی موجودہ حالت میں آ گئی ۔

زمین کی فضا میں جو گیسیں تھیں ان کا ایک حصہ خلا میں چلا گیا، ایک حصے نے پانی کی شکل اختیار کر لی ، ایک حصہ زمین کی تمام اشیا ء میں جذب ہو گیا اور ایک حصہ ہماری فضا میں باقی رہا جو اب آکسیجن اور نائٹروجن کی شکل میں موجود ہے ۔ زمین کے اوپر جو فضا ہے وہ چھ گیسوں کا مجموعہ ہے جو متناسب مقدار میں موجودہیں ، مثلا آکسیجن اکیس فیصد ہے اگر یہ بڑھ کر دگنی ہو جائے زمین کی تمام اشیاء میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جائے کہ ایک درخت کو آگ لگانے سے سارا جنگل ایک منٹ میں راکھ بن جائے “ وہ سانس لینے کے لیے رکے تو میں نے عرض کیا ”بابا جی ایسے لوگ بھی تو ہیں جو کہتے ہیں یہ ساری کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہے ، مثلا اگر تین تین سال کے آٹھ دس بچوں کو کمپیوٹر کے کی بورڈ تھما دیئے جائیں اور وہ مسلسل اس پر انگلیاں مارتے رہیں تو ممکن ہے ان کے ٹائپ کیئے ہوئے ہزاروں لاکھوں صفحات میں سے علامہ اقبال کی کوئی نظم وجود میں آ جائے ۔

“ انہوں نے گردن اٹھائی اور مسکرا کر بولے ” ایسے اتفاقات اربوں کھربوں میں ایک ہوتے ہیں ، مثلا اگر تم دس پرچیاں لو اور ان پر ایک سے دس تک نمبرنگ کر دو اور انہیں اچھی طرح مکس کر دو اور پھر انہیں ترتیب سے نکالنے کی کوشش کرو ، یہ امکان کہ پہلے نمبر ایک والی پرچی تمہارے ہاتھ میں آئے گی دس میں سے ایک ہے ، یہ امکان کہ ایک کے بعد نمبر دو والی پرچی آپ کے ہاتھ میں آئے گی سو میں سے ایک ہے حتی کہ دس نمبر تک کی تمام پرچیاں تمہارے ہاتھ میں با الترتیب آئیں یہ چانس دس ارب میں صرف ایک بار ہے ، گویا اس کائنات کو اتفاقات کا نتیجہ ماننے کے لیے ہمیں اس کائنات کی عمر دس ارب سال ماننا پڑے گی اور موجودہ سائنس اس مدت کا اقرار نہیں کرتی ۔

“ میں لا جواب ہو گیا ، بابا جی بھی خاموش ہو گئے ، میں نے آخری سوا ل داغا ” اچھا آپ اس کائنات پر غور وفکر سے خدا تک کیسے پہنچے ۔“ وہ بولے ” جب میں نے کائنات کے ان رازوں پر غور کیا تو مجھے اندازہ ہو ا کہ اتنا بڑا نظام خود بخود چل سکتا ہے اور نہ ہی خود بخود وجود میں آ سکتا ہے ،اس سے مجھے کسی خالق کا یقین ہو گیا اور جب خالق کا یقین ہو گیا تو میں نے سوچا اس نے کچھ اصول اور ضابطے بھی بتائے ہوں گے ، یہ چیز مجھے قرآن کی طرف لے آئی اور اگلی سار ی گرہیں قرآن نے خود ہی کھول کر رکھ دیں ۔

اب جب میں دیکھتا ہوں کہ اس وسیع کائنات میں اربوں کھربوں کہکشائیں ہیں ، ان میں ایک ہماری کہکشاں ہے اور اس میں بھی اربوں کھربوں ستارے اور سیارے ہیں ، ان میں ایک سیارہ ہماری زمین ہے ، ہماری زمین پر لاکھوں مخلوقات ہیں اور ان مخلوقات میں سے ایک مخلوق انسان ہے اور دنیا میں سات ارب انسان ہیں اورا ن سات ارب انسانوں میں سے تین ارب انسان ایشیاء میں بستے ہیں ان تین ارب میں سے بائیس کروڑ پاکستان میں ہیں اور ان بائیس کروڑ میں سے ایک میں اکیلا ان پہاڑوں میں بیٹھا اسے پکارتا ہوں اور وہ میری پکارنہ صرف سنتا ہے بلکہ جواب بھی دیتاہے تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ کوئی خدا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :