نظام تعلیم کو معیاری بنائیں

جمعرات 19 نومبر 2020

Muhammad Muneeb Ashfaq

محمد منیب اشفاق

کچھ عرصہ قبل دنیا میں سب کام معمول کے مطابق چل رہے تھے۔ ملازمین اپنے دفاتر میں،طالب علم اپنے تعلیمی اداروں میں، سب کے سب کسی بھی پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں کسی بھی خوف کے بغیر جا رہے ہوتے تھے۔ لیکن اچانک دنیا میں افراتفری پھیل گئ۔ لوگوں میں خوف پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ ملازمین کو دفاتر میں جانے سے روک دیا گیا، بچوں کو تعلیمی اداروں سے تعطیلات ہو گئ۔

لوگوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کا کہا جانے لگا۔ لوگوں کی پریشانی میں دن بہ دن اضافہ ہونے لگا۔ اس پریشانی کا سبب کون سی چیز تھی۔ اس خوف اور پریشانی کا سبب ایک وبا تھی جس کو کرونا وائرس کا نام دیا گیا۔ اس وبا نے تقریباً دنیا کے ہر ملک میں ڈھیرے جما لیے۔ ہر شخص اس کی وجہ سے پریشانی اور خوف میں مبتلا تھا۔

(جاری ہے)

اس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی نوکریوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

لیکن اس صورتحال میں زندگی گزارنے کے لیے مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کو محنت کر کے اپنے گھر والوں کی ضروریات بھی پوری کرنی تھی اور ملازمین کو گھر میں رہ کر ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا تھا، بچوں کو گھر میں رہ کر تعلیم حاصل کرنی تھی تاکہ تعلیم کا خرج نہ ہو۔ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے( online system ) شروع کیا گیا تقریباً پوری دنیا میں ہی۔

ہم پاکستان کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی (online system) کا آغاز کیا گیا تاکہ ملازمین گھر رہ کر اپنا کام جاری رکھ سکیں، بچے گھر میں رہ کر تعلیم حاصل کر سکیں۔ جس نقطے کومیں مزید زیرے بحث لاؤں گا وہ ہے بچوں کی          (online system) کے ذریعے تعلیم حاصل کرنا ۔ اس وبا کے آنے کے بعد جب ( online system) شروع کیا گیا تو طالب علموں کے لیے بہت مشکلات تھی اور اس وقت سے اب تک اس ( online system ) کو کامیاب نہیں بنایا جا سکا کیونکہ سارے سٹوڈنٹس کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں تھی۔

یہ مسئلہ چھوٹے بچوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں تک ہے۔ چلیں جیسے بھی جو وقت گزرنا تھا وہ گز رگیا۔ سٹوڈنٹس جیسے بھی ( online system ) کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ لیکن اب اس چیز کو بہتر کرنا ہوگا۔ اگر بات کی جائے سکول، کالجز کی تو ان میں کافی حد تک آئن لائن سسٹم ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یونیورسٹیوں میں اب بھی زیادہ تر آئن لائن سسٹم ہی سے کلاسز لی جا رہی ہیں کیونکہ ایس او پیز کا بھی خیال رکھنا ہے۔

اس لیے 60 فیصد آئن لائن کلاسز لی جاتی ہیں اور 40 فیصد ( On campus ) کلاسز ہوتی ہیں۔ ( On campus ) کلاسز میں کوئی مسائل نہیں ہوتے لیکن آئن لائن سسٹم میں انٹرنیٹ کا مسئلہ سرے فہرست ہے۔ یہاں میں ایک عام سی مثال دیتا ہوں " ٹیچرز اپنی پوری ( Effort ) سے پڑھاتے ہیں لیکن بعض اوقات اساتذہ اپنی پوری بات کرلیتے ہیں پھر انہيں پتا چلتا ہے کہ سٹوڈنٹس کو انٹرنیٹ میں خرابی کی وجہ سے آواز ہی نہیں آئی۔

اس سے سٹوڈنٹس اور اساتذہ دونوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑھتا ہے کیونکہ ( communication ) میں رکاوٹ ہوتی ہے اور بعض اوقات کلاس ( cancel ) کرنا پڑتی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ ایسا سسٹم بنائیں کہ جو کلاسز تعلیمی اداروں میں ہوں ان کے اندر ہی اتنا ( course ) ہو جو ( complete ) ہو جائے تا کہ آئن لائن سسٹم کی ضرورت نہ پڑھے۔ طالب علم اور اساتذہ کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑھے۔ اگر آئن لائن سسٹم کے تحت بھی پڑھنا ہو تو میں حکومت سے کہتا ہوں کہ پورے ملک میں ایسا نظام قائم کریں جہاں کسی بھی جگہ انٹرنیٹ کا مسئلہ نہ ہو تاکہ سٹوڈنٹس  بغیر کسی پریشانی اور ذہنی دباؤ کے تعلیم حاصل کر سکیں اور  اساتذہ آسانی سے پڑھا سکيں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ نظام تعلیم کو معیاری بنائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :