اللہ کے راستے پر شرم کیسی

بدھ 21 اکتوبر 2020

Musharaf Asad

مشرف اسد

فرض کریں آپ ایک دریا میں گر چُکے ہیں اور دریا کا پانی رُکا ہو نہیں بلکہ تیزی سے بہہ رہا ہے کہ جو بھی اُس میں گرتا ہے تو وہ بہتا ہوا چلے جاتا ہے ۔لیکن اب راستے میں درخت کو آپ نے تھام لیا جس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں ۔اُس درخت کو جو بھی پکڑتا ہے ٹوبنے سے بچ جاتا ہے۔اُس درخت کو پکڑے ہوئے آپ کے ساتھ کچھ ہی لوگ ہیں۔مگر اب جو لوگ دریا میں ٹوب رہے ہیں و ہ درخت کو پکڑیے ہوئے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور بولتے ہیں کہ کیسے عجیب لوگ ہیں یہ ہمارے ساتھ بہتے ہوئے پانی میں کیوں نہیں ؟ ہمارے ساتھ کیوں نہیں ٹوب رہے؟ ۔

آپ ان کو دیکھتے ہیں اور شرمندہ ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ شاید ہم واقعہ عجیب ہیں ۔ہمیں بھی ان کے ساتھ ہونا چاہئیے تھا۔
یہی صورت حال آج ہماری ہے ۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اللہ کے دین کے قریب آنے لگتے ہیں تو لوگ بولنے لگتے ہیں کتنے عجیب لوگ ہیں یہ کہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار بھی نہیں سکتے ۔

(جاری ہے)

ہمیں تو زندگی ایک بار ملی ہے اسکو تفریح میں ہی گزاریں گے، کیا غلط ہے اور کیا سہی ہمیں خوب معلوم ہے ۔

اور اکثر دفعہ تو ہم لوگوں کی باتوں کے دباؤ میں آنے لگتے ہیں اور شرمندہ ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ شاید ہم واقعہ عجیب ہیں اور شاید ہمیں بھی ان لوگوں جیسا ہونا چاہئیےمگر در حقیقت یہ وہی لوگ ہیں جو ٹوب رہے ہیں ۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی کتاب حق ہے ۔یہ کتاب 1400 سال پہلے نازل ہوئی ،معاشرہ بدل گیا ہے،رسم و رواج بدل گئے ہیں،زُبانیں بدل گئیں ہیں ،معیشت بدل چُکی ہے، ہمارے ارد گرد دُنیا بدل چُکی ہے لیکن اس کتاب کے احکامات کبھی نہیں بدلیں گے ۔

اس سے سے کوئ فرق نہیں پڑھتا آپ کونسی صدی میں رہتے ہیں جو اللہ نے فرما یا دیا حرام ہے تو وہ حرام ہے اور جو اللہ نے فرمادیا حلال ہے تو وہ حلال ہے چاہے کوئ کتنا ہی بُرا مانے۔ جو درخت جس کی جڑیں مضبوط ہیں قرآن ہے۔اور جو بھی قرآن کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے ٹوبنے سے بچ جاتا ہے۔
اللہ کے راستے پر چلنے مین شرمندہ نہ ہوں۔لوگو ں نے پیغمبروں کو بھی نہیں چھوڑا تو ہم تو کسی گنتی میں نہیں ۔

آپ ﷺ اعلان نبوت سے پہلے بھی الصادق الامین تھے،امانت رکھنے والے تھے ، اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز تھے انصاف کیا کرتے تھے۔ مگر جب اعلان نبوت کیا اور قرآن پڑھنے لگے تو مشرکین مکہ کو یہ ناگوار گُزرا اور آپ پر ہر طرح کے الزمات لگانا شروع کردئیے۔
یہی حقیقت ہے کہ ہم جب بھی قُرآن پر عمل کرنا شروع ہونگے تو ایسے لوگ ضرور ہونگے جن کو ہماری باتیں ناگوار گزریں گی۔ تو اس میں کوئ حیرانی کی بات نہیں ہمیں بس قُرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے اور صبر سے کام لینا ہے۔
آخر مین اللہ سے دعا کرتا ہوں کے وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے ۔ ہمیں دین میں استقامت عطا فرماے اور صبر کرنے والا بنائے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :