ماں

منگل 1 دسمبر 2020

Nabeel Nayyar

نبیل نیر

ماں ایسا لفظ ہے جو دونوں ہونٹوں کے ملائے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ لفظ ماں سنتے ہی دل و دماغ ایسے تر و تازہ ہو جاتے ہیں جیسے بارش بنجر زمین کو تر و تازہ کر دیتی ہے۔ماں وہ ہستی ہے جس کی آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہے۔ماں اپنی اولاد کے لیے کیا کچھ نہیں کرتی،ایسی باتیں،ایسے واقعات ہمیں پڑھنے اور معاشرے میں کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اولاد اگر تکلیف میں ہو تو یہ صنف نازک، ماں، مشکلات کی ان چٹانوں سے بھی ٹکرا جاتی ہے اور اپنی اولاد کی تکلیف کو دور کرنے کے لیئے ہر جتن کر ڈالتی ہے۔ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے، جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکا اور نہ ہی ناپ سکے گا۔ ماں کی محبت کو دیکھ کر اس بات پر اور بھی یقین کامل ہوجاتا ہے کہ کیوں عالمین کے رب نے جب اپنی مخلوق سے محبت کا دعوی کیا تو اس کے لیئے ماں کو مثال بنایا۔

(جاری ہے)


سچائی کا پیکر لازوال محبت، شفقت، تڑپ ، قربانی، مہربانی جب یہ تمام لفظ یکجا ہوجائیں تو بن جاتا ہے ۔تین حرفوں کا لفظ  ماں  جس طرح اللہ تعالی کی نعمتوں کا شمار کرنا ممکن نہیں اسی طرح ماں کی ممتا کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن افسوس کہ آج اس عظیم ہستی کے ساتھ اولاد کا رویہ اور ضعیف ماں کو گھر سے نکال دینے کے واقعات میں روز بروز اضافہ کو دیکھ کر واقعات کو قلمبند کرتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں وجود تھرتھرانے لگتا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ عمر کوئی بھی ہو چوٹ لگنے پر پہلا لفظ زباں سے  ماں  ہی نکلتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس ہے جس کی ماں زندہے کیونکہ ہر آدمی انسانیت کی حقیقی تصویر اپنی ماں کے چہرے پر دیکھ سکتا ہے۔

اچھی تربیت ماں سے ملتی ہے اسکول تو صرف تعلیم دیتے ہیں۔ ماں جب ہنس کر دیکھتی ہے تو جنت کی ساری کلیاں کِھل اٹھتی ہیں اور بیٹے کی زندگی ماں کے اس ہنسنے سے عبارت ہوتی ہے ۔ بیٹے کے لئے ماں کے جو جذبات ہیں ماں کی جو کہانیاں ہیں ، ماں کے ہنسنے میں جو درد کی امڈی ہوئی ایک کائنات ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ ساری زندگی ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر بندہ ماں کی خدمت کرتا رہے تب بھی ماں کا حق ادا نہیں ہوسکتا ۔

یاد رکھو ماں کے پیار کا کوئی کنارہ نہیں ، سمندر کے پاتال تک کوئی شائد پہنچ گیا ہے لیکن ماں کے پیار کا کنارہ کسی کو آج تک نہیں ملا۔
ماں ہی وہ ہستی ہے جو اپنے خونِ جِگر سے اولاد کو پالتی ہے،ماں ہی وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کے آرام کی خاطر اپنا چین سکون قربان کرتی ہے،جوخود تو گرمی برداشت کرتی ہے مگر اولاد کو اس تکلیف سے بچانے کی کوشش کرتی ہے،جواولاد کی خاطر سردیوں کی ٹھنڈی اور لمبی راتیں جاگ کر گزار دیتی ہے، جو اپنی خواہشات قربان کر کے اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے،جو اپنے منہ کا نوالہ بھی اولاد کے منہ میں دے کر خوش ہوتی ہے اور خود بھوکی سو جاتی ہے،جواولاد کو گرم و نرم بستر پر لٹا کر خود ٹھنڈے فرش پر لیٹ جاتی ہے، جوشوہر کی وفات کے بعد بھی اولاد کو دربدر بھٹکنے نہیں دیتی، جو قرض کی چکی میں پِس کر بھی اولاد کی فرمائشوں کو پورا کرتی ہے، جو اولاد کی تھوڑی سی تکلیف پر بھی تڑپ جاتی ہے، جوبرتن دھو کر لوگوں کے گھروں کی صفائیاں کرکے اپنی اولاد کا پیٹ پالتی نظر آتی ہے، جو نافرمان اور بدکار اولاد کو بھی اپنے سایہ شفقت اور ممتا کی ٹھنڈک سے محروم نہیں کرتی اور ماں ہی وہ ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے۔

ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ ماں ایک ایسی ہستی ہے جو ہو تو آنگن میں بہار آجاتی ہے اور جو نہ ہو تو تمام تر رونق کے باوجود گھر ویران لگتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں خدا کی محبت کی دوسری تصویر ماں ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو ایک ماں ہی ہوتی ہے جو اسے سب سے زیادہ اپنائیت اور محبت دیتی ہے۔ ماں کی محبت وہ واحد اور سچی محبت ہے جس میں کوئی ریاکاری، دکھاوا، بناوٹ نہیں ہوتی۔

اللہ تعالی نے ماں کو یہ درجہ عطا کیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے کا مطلب ہے کہ ساری عبادتیں مل کر بھی ماں کی خدمت کے برابر نہیں ہو سکتیں۔اس لیے ماں کا احترام سب پرلازم و ملزور ہے ۔کائنات اس بات کی گواہ ہے کہ جس نے بھی اپنی ماں کو رلایا اس نے معاشرے میں کبھی بھی عزت نہیں پائی اور وہ ہمیشہ تباہ ہوا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :