
سیکھنے کی ضرورت ہے
جمعرات 3 اپریل 2014
ندیم گُلانی
(جاری ہے)
میں نے جب اُس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا شُکر اتنے بے ہودہ انداز میں ادا کرتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا،میرے صبر کے پیمانے ٹوٹ گئے، میں نے اُسے کہا کہ بھائی اتنے چھوٹے سے شہر میں رہتے ہوئے صرف5 لوگوں پہ مُشتمل خاندان کو سنبھالتے ہوئے ،3,30000 روپے تک کی ماہانہ آمدنی رکھتے ہوئے بھی اگر تمہارا اللہ تعالیٰ کی ذات کا شُکر ادا کرنے کا انداز اتنا تھکا ہُوا ہے ،تو پھر میرے خیال میں تمہاری حوس نے حوس کی صرف ایک دُکان نہیں بلکہ دُکانیں کھولنا شروع کردی ہیں،بقولِ احمد فراز#
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
میں رُکا ،ذرا سانس لِیا اور پھر اُن صاحب سے مُخاطب ہُوا،میں نے عرض کِیا جناب اگر حقیقت پسند ہو کہ دیانت اور ایمانداری کے ساتھ آنکھ کھول کر دیکھو ،سوچو اورسمجھو تو تمہیں خود معلوم ہوجائے گا ،کہ اِس مُلک نے ہمیں کیا کیا عطا کِیا ہے، شاید ہم اِس قابل بھی نہیں ہیں کہ جتنا پیدائش سے لیکر اب تک ہمارے ہر قدم پر ہمیں اِس مُلک نے عطا کِیا ہے،لیکن میرے خیال میں تم ایک بُنیادی طور پہ ناشُکرے اورلالچی انسان ہو،اِسی لئے نہ تو تم اللہ تعالیٰ کی تمہیں عطا کی ہوئی نعمتوں کا شُکر اداکرنے کی طرح ادا کرتے ہو ،اور نہ ہی اس مُملکتِ خُداداد ”پاکستان“ کا شُکر ادا کرتے ہو۔
میرے خیال میں تم نے اپنی حوس سے بھرپورمحدود زندگی سے باہر کبھی جھانک کرنہیں دیکھا،تم نے یہ نہیں دیکھا اور نہ ہی دیکھنا چاہا کہ اِس مُلک میں نہ جانے ایسے کتنے لوگ ہیں جو چھ سے آٹھ ہزار روپے کی آمدنی میں اپنے آٹھ بچوں کی پرورش کرنے پر مجبور ہیں،اور وہ چھ سے آٹھ ہزار بھی کنفرم انکم نہیں ہے،وہ بھی مل جانے کی بُنیاد پر منحصر کرتی ہے،اور میرے خیال میں وہ لوگ اپنی گلی کے نُکرپہ لگے ہوئے نلکے سے پانی بھر کے ،اور اپنی ٹین کی بنی ہوئی چھتوں والے گھروں میں رھ کرہم سے ذیادہ پُر سُکون اور اللہ اوراِس مُلک کا سچا شُکر ادا کرنے والی زندگیاں گُزار رہے ہیں۔اور ہم لوگ اپنی آسائشوں سے بھرپور زندگی گُزارنے کی خواہشوں کو سفر کرواتے ہوئے وہاں تک لے آئے ہیں کہ جہاں ہمیں ہماری خواہشیں،ضرورت لگنے لگی ہیں۔اور ہم اپنی ان جھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
آج ہمارے گھر کااے سی یا جنریٹرخراب ہوجائے تو ہمارے اندر ایک بے چینی اور بے سُکونی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے،اور ہم سوچتے ہیں کہ کچھ بھی کر کہ اِنہیں جلد سے جلد ٹھیک کروالیا جائے،ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا،شایدہم مر جائیں گے۔جبکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اِس مُلک میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں روز مرہ کی زندگی میں دو سے تین وقت کا کھانہ بھی ٹھیک طریقے سے پیٹ بھر کے کھانے کو نہیں ملتا،لیکن اُنہیں کچھ نہیں ہوتا۔۔، وہ مرتے نہیں ہیں۔بلکہ ایک دن گُزارنے کے بعدہر حال میں اللہ تعالیٰ کاشُکر ادا کر کہ، ایک دوسرا دن بھرپور انداز سے گُزارنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں،اور میرا خیال ہے کہ ہمیں شُکر سے بھرپور زندگیاں گُزارنے کے لیے،اُن لوگوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ندیم گُلانی کے کالمز
-
الوداع۔۔۔۔۔امجد صابری۔۔۔۔۔الوداع
جمعرات 30 جون 2016
-
ایک فتوے کی ضرورت ہے
جمعرات 16 جون 2016
-
”اندھوں کے شہر میں آئینے“
اتوار 5 جون 2016
-
آہ۔۔۔۔صادق فقیر
جمعرات 12 مارچ 2015
-
اساتذہ اور سوشل میڈیا
ہفتہ 3 جنوری 2015
-
کیسا لگتا ہے دور ذلّت کا
پیر 28 جولائی 2014
-
مُشاعرے،میرا دُکھ اور کُل پاکستان مُشاعرہ ٹنڈوآدم2014
بدھ 18 جون 2014
-
سیکھنے کی ضرورت ہے
جمعرات 3 اپریل 2014
ندیم گُلانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.