وفات پارٹی

ہفتہ 12 جون 2021

Naeem Akhter Rabbani

نعیم اختر ربانی

"انجوائے منٹ" کے نام پر ہم نے کون سے جتن روا نہ رکھے۔ محض طبعی خوشی کے لیے ہر غم و غصّے اور جدل و لڑائی کے بے ہنگم و بے سود مجالس کے نام بدل دیے۔ حواسِ خمسہ کو لبرل ، بھاری بھرکم آنٹیوں کے نعروں اور دعوؤں کی طرح آزاد چھوڑ دیا۔ گوشہ نشینی اور رہبانیت کو خلافِ شرع قرار دے کر گلیوں ، محلوں ، چوک و چوراہوں حتیٰ کہ بازاروں کو تختِ سخن بنا کر ابلیسی دستوں کو آرام کا موقع دیا۔

دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کا بچشمِ خود مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے پورے قبیلے کے ساتھ جانا فرضِ خداداد خیال کیا۔ وہاں ہر داغ و دھبے اور بولنے والے کی تقریر کو دیکھ اور سن کر اس پر اپنے دانش ورانہ تبصروں کو بکھیرنا بھی کوئی ہم سے سیکھے۔ ٹماٹروں کی ریڑھی لگانے والا دیہاڑی دار مزدور بھی عالمی سازشوں کو یوں بے نقاب کرتا ہے کہ بے اختیار اس کی پیشانی "چومنے" کو جی چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

اپنے آہنی ہاتھوں کو لہرا لہرا کر حکومتی رازوں کو ایسے افشا کرتا ہے کہ صالح و شب گزار بھی اسے ان شب زادیوں کا سربراہ تصور کرتا ہے جو ایوانِ بالا کے سپاٹ و بد مزہ ماحول میں رنگ بھرتی اور خوشبوئیں بکھیرتی ہیں۔ اپنے تمام تر خیالات ، فرمودات ، ارشادات اور دانش ورانہ نکات کو بر سرِ محفلِ یاراں رکھ کر بزبان حال یہ کہتا ہے کہ
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سرِ عام رکھ دیا
کچھ ایسا ہی حال ہماری غم کی تقریبات کا ہے۔

ایسی سج دھج اور اہتمام و انصرام ہوتا ہے کہ خوشی کی محافل ماند ہوں۔ روز بروز نئے چونچلے بازار کی زینت بنتے ہیں اور پرانے "دقیانوسی" کا اعلیٰ الزام کا تمغہ وصول کر کے غربت کدوں کی حسرت بن جاتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ولایت میں کوئی مسئلہ ، واقعہ یا شورش ٹھنڈی پڑ جائے اور نئے موضوع کی تلاش شروع کر دی جائے تو پاک و ہند کے اعلیٰ دانشور اسے سعادت سمجھ کر نہایت خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اس کی ایک مثال "لنڈے" کی وسیع اور منافع بخش تجارت ہے۔

شامیانے ، دیگ برے ، باپردہ کرسیاں ، وسیع و عریض دستر خوان ، ان پر چنیدہ عمدہ خوان و پکوان اور کہیں پھلوں و کجھوروں کا عربی رواج انتہائی شرمساری کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اظہارِ افسوس کے لیے آنے والی خواتین اپنے چہرے کو کریموں کے ساتھ ایسے لیپ دیتی ہیں جیسے پرانے وقتوں میں لوگ مٹی کے کچے مکانوں کو سفید چونے کے ساتھ رنگا کرتے تھے۔

بے رنگ چہرے کی متعدد جھریوں میں پھنسی ہوئی کریم ان کے غم زدہ دل کا دکھڑا سناتی ہے۔ حلقہء خواتین سے بزور اور بتکلف رونے کی آوازوں کے ساتھ ہوا کے تخت پر سوار ہو کر خوشبو کے بگولے بھی گوشہء مرداں تک پہنچتے ہیں۔ گپ شپ میں مصروف چھوٹے چھوٹے خواتین کے دستے اپنی دکھ سکھ کی داستانوں کے ساتھ ساتھ میت کے اہل خانہ کے غم میں بھی شریک ہوتے ہیں۔

ہر آنے والی بڑھیا اہلِ خانہ کو یہ بتانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے کہ مرحوم یا مرحومہ اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ایک عظیم سرمایہ تھے۔ جب ورثاء خاطر میں نہ لائیں تو بین کر کے ، گریبان چاک کر کے ، بالوں کو کھول کر ، سینہ پیٹ کے اور خوب آہ و فغاں کے ساتھ یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔ چنانچہ اہلِ خانہ اپنے غم کو پسِ پشت ڈال کر بڑھیا کے دکھ کا مداوا کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔


گوشہء حضرات بھی کسی سے کم نہیں۔ سیاست ، معاشرت ، سیادت ، مذہب اور سماج کے متعلق اپنی پٹاری سے ایسے ایسے موتی اگلتے ہیں کہ تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم بھی اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ضرور ان کی اولاد میں سے البیرونی ابھرے گا اور ان حضرات میں سے کوئی ایک ارسطو ثانی کے لقب سے جگمگائے گا۔ سفید ریش بزرگ اپنی جوانی کی شوخیوں اور شرارتوں سے قہقہے بکھیرتے ہیں۔

زمینوں پر ناجائز قبضوں کی داستانیں الاپتے ہیں۔ پہلے وقتوں کی بدحالی کو خوشحالی ، غربت کو آسودگی اور دقیانوسی کو آزادانہ اظہارِ رائے سے تعبیر کرتے ہیں۔ کسی کی ذات کو مشقِ سخن بنا کر اپنے طنز کے نشتر اس تک پہنچانے میں تمام حاضرین حصہ لیتے ہیں۔ دعا جیسی عظیم عبادت کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہر آنے والا ورثاء سے فرداً فرداً اظہارِ افسوس کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو کہتا ہے۔

یہ سلسلہ تکمیل تک پہنچتا نہیں کہ ایک اور صاحب آ دھمکتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ بغیر کسی طویل وقفے کے چلتا رہتا ہے۔ اس عجلت کے ساتھ ہاتھ اٹھانے اور گرانے کا سلسلہ رہتا ہے کہ اگر کوئی دور سے اس منظر کا نظارہ کرے تو وہ یہ خیال کرے گا کہ اجتماعی طور پر مکھیاں بھگانے کا عمل جاری ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں اٹھنے والے دستِ سوال کو یوں ریا کا پیش خیمہ بنا دیا گیا ہے کہ الامان و الحفیظ۔

اس سے ایک اور خرابی یہ لازم آتی ہے کہ داستان گو کو چپ سادھنی پڑتی ہے۔ بسا اوقات سامعین سے زیادہ سنانے والا بے چین ہوتا ہے کہ بے وقت کی قطع کلامی نے ساری کہانی کا بیڑا غرق کر دیا۔ جیسے ڈرامہ جب سنسنی خیز مراحل میں داخل ہوتا ہے تو اشتہار چلانے کا وقت ہو جاتا ہے۔ پرکھوں سے شنید ہے کہ جب کسی گھر میں فوتگی ہو جاتی تھی تو محلے دار تین دن ، سات دن اور چالیس دن علی اختلاف الروایہ چولہا نہیں جلنے دیتے تھے۔

باری باری تمام ورثاء کو پیٹ بھر کر کھلاتے تھے۔ ورثاء کی ذمہ داری فقط رونا دھونا تھی۔ مگر فی زماننا محلے دار بھی میت کے گھر سے کھاتے ہیں اور اسے بابرکت کھانے کا نام دے کر دو دو وقت کی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مخلصانہ قہقہوں ، مسکراہٹوں ، پھلجھڑیوں اور ریا کارانہ آہ و فغاں ، دعا و استغفار کے ساتھ میت کو لحد تک پہنچاتے ہیں اور یوں "وفات پارٹی" کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :