ہمارا مقصد وجود کیا؟

بدھ 30 جون 2021

Naeemullah

نعیم اللہ

اسلام وہ تحریک ہے جو معبود واحد کے نظریہ پر انسانی زندگی کی عمارت کو تعمیر کرنا چاہتی ہے،یعنی یہ نظریہ کہ اس کائنات کل کا خالق و مالک صرف اور صرف ایک ہے،اور اس کا اس میں کوئی شریک نہیں،اور انسان کی حیثیت اس دنیا میں اس مالک کے نائب اور خلیفہ کی ہے،اگر کوئی اس خام خیالی میں ہو کہ وہ اس کائنات میں مختار کل ہے تو وہ ایک بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہے۔


یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسان کا بنیادی مذہب اسلام ہی ہے،لیکن جس معاشرے میں اس کی تربیت اور اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے،وہ اس کو متعلقہ رسوم و رواج اور مذہب سے جوڑ دیتا ہے،کیونکہ انسان کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی تھی اور وہ مسلمان تھے، قرآن کریم اور تاریخ کے اوراق کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ معلموم ہوتا ہے کہ جب جب انسان راہ مستقیم سے ہٹا ہے،تب اللہ تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لئے مختلف مواقع پر مختلف رسولوں اور انبیاے کرام علیھم السلام کو ارسال فرمایا ہے،تاکہ وہ پھر سے ان کو گمشدہ راہ کی طرف دعوت دیں،اور ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو یہ واضح تعلیمات دی تھیں کہ اس کائنات کل کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،جس میں اس کا کوئی شریک نہیں،اور انسان کی فلاح صرف اس میں ہے کہ وہ زمین پہ بحیثیت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اس کے احکامات کی تعمیل کرے۔

(جاری ہے)


لیکن ہوا کچھ یوں ہے کہ انسان اپنی عجلت اور ہٹ دھرمی کے باعث خدا سے کوسوں دور ہو چکا ہے،کسی کو اقتدار کانشہ ہے تو کوئی کائنات کے نظامیں فساد پھیلانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے،جب انسان کی اس روش نے طول پکڑا تو کائنات کا نظام مدبر کل کے حکم سے حرکت میں آیا،اور کورونا جیسے حقیر جرثومے کے سامنے دنیا کی سپر طاقتیں اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئیں،بھلا کس کے وہم و گمان میں تھا کہ اس دور میں بھی جب انسان چاند پر پہنچ چکا ہو، ایک ان دیکھا جرثومہ انسان کو شکست خوردہ کر دیگا،آج پھر ثابت ہو چکا اور سائنسدانوں کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ کوئی تو ہستی ہے جو اس نظام کل کو چلا رہی ہے،اس لئے تو اللہ تعالیٰ نے بارہا اپنی کتاب میں فرمایا ہے:
''ان فی اختلاف اللیل و النھار وما خلق اللہ فی السموٰات و الارض لاٰیات لقوم یتقون(یونس)''
ترجمہ:
''یقینا ڈرنے والی قوم کے لئے دن اور رات کے اختلاف اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کیا ہے اس میں نشانیاں ہیں ''
کائنات کا مالک بار بار فرماتا ہے ذرہ عقل کو تو استعمال میں لاؤ،کیا تمہیں یہ بڑے پیمانے پر کائنات بنی نظر نہیں آتی،کیا رات اور دن میں خود بخود تغیر واقع ہوتا ہے،کیا آسمان وزمین نظر نہیں آتے،کیا ان میں سورج،چاند،ستارے،نہریں،درخت ،قدرت کے عجائب نظر نہیں آتے،اگر نظر آتے ہیں تو ان میں ڈرنے والوں اور عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں،در حقیقت اگر انسان غور و فکر کرے تو اس کا وجود ہی کسی خالق کا متقاضی ہے،اور ضرور بہ ضرور اس کو اپنے خالق حقیقی کی طرف پلٹنا ہے،اور اس کو اپنے کئے کا حساب کتاب دینا ہے،آخرت بھی برحق ہے ، اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو آخرت کے ثبوت کی دلیل خود اسے اپنے وجود پہ غور کرنے سے مل جائیگی،کیونکہ انسان بھی تو خود معدوم تھا لیکن آج وہ موجود ہے،اب انسان کو جو ذات عدم سے وجود میں لائی ہے وہ آخرت کو وجود میں لانے پہ بھی بطریق اولیٰ قادر ہے۔


کائنات بنانے والے نے بھی کائنات کو کسی مقصد کے بغیر نہیں بنایا،کائنات کو انسان کے لئے بنایا گیا ہے تاکہ انسان اس میں اپنی اخلاقی ذمہ داریاں ادا کر سکے ،اور وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اس سے اس کی ادا کردا اخلاقی ذمہ داریوں کے بابت لازما پوچھے گا، اور اس کو اس مطابق جزا دیگا۔
لہٰذا آج انسان کو سوچنا ہوگا کہ وہ اس وقت کہاں کھڑا ہے؟
اور اس کی فلاح کس چیز میں مستور ہے!؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :