دعا کی عدم قبولیت اور اس کے اسباب

پیر 7 جون 2021

Naeemullah

نعیم اللہ

حضرت ابراہیم بن ادہم (قدیم زمانے کے ایک بہت بڑے عالم اور ولی اللہ) کے پاس کچھ لوگ آئے اور ان سے سوال کیا :
اے ہمارے امام ۔۔!
کیا بات ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتی،انہوں نے جواب دیا:
تم اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہو لیکن اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے،تم رسولﷺکی محبت کے دعوے کرتے ہو لیکن اس کی سنتوں کو تم نے ترک کردیا ہے ،تم شیطان کو دشمن قرار دیتے ہو لیکن اس کی پیروی کرتے ہو،تمہیں جنت کا علم ہے لیکن اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتے، تمہیں جہنم کی ہولناکیوں کا ادراک ہے لیکن اپنے آپ کو اس کی طرف دھکیل تے جا رہے ہو،تم لوگ مانتے ہو کہ موت کا آنا یقینی ہے ،لیکن اس کے لئے تیاری نہیں کرتے،تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہو لیکن اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔

(جاری ہے)


پھر تمہاری دعا کیسے قبول ہو۔۔۔؟
ذرآ توجہ فرمائیں یہ صورتحال قدیم عہد کی ہے جب لوگ بہ نسبت ہمارے ایمان و امانت میں کہیں گنا زیادہ تھے،ان کی صداقت کی مثالیں دی جاتی تھیں لیکن باوجود اس کے ان کو دعا کی عدم قبولیت کی شکایت تھی،لہٰذا وہ اپنی شکایت لئے اس وقت کے ایک بزرگ کے پاس جمع ہوتے ہیں۔
عرض کرتے ہیں دعا قبول نہیں ہوتی !
کیا کریں؟
بزرگ فرماتے ہیں :
اے لوگو!
دعا کی قبولیت کے تو کچھ شرائط ہیں اگر وہ مکمل ہونگی تو دعا بھی قبول ہوگی بصورت دیگر دعا کی قبولیت کی بھی کوئی سبیل نہیں احکام خداوندی اور سنت رسولﷺ پر عمل ،شیطان کو دشمن جانتے ہوئے اس سے دوری،اللہ میاں کا شکر ،موت سے عبرت حاصل کرنا،جنت کے حصول کی کوشش اور جہنم سے بچاؤ کا سامان کرنا،اب خود ہی اپنے نفس کو حکم مکمل کرلو وہ تمہیں خود بتائے گا کہ یہ خصوصیتیں تمہارے اندر ہیں یا نہیں اگر جواب نفی میں ہو تو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر گڑگڑاؤ،توبہ کروپھر تم خودبخود اس کا نتیجہ دعاؤں کی قبولیت کی صورت میں اپنے سامنے پاؤگے،کیونکہ میرے رب کی رحمت بہت وسیع ہے۔


یہ تو رہا سابقہ ادوار کے لوگوں کا معاملہ ،لیکن اس دور کے لوگوں کو موجودہ دور میں اس طرف خصوصی توجہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے در پر دستک دیں،منکرات سے اجتناب کریں،اخلاص،صداقت و دیانت کہ دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں تاکہ دعا بھی قبول ہو اور ایمان بھی مضبوط ہو،لیکن قلب و چشم آبدیدہ تب ہوجاتے ہیں جب ہم ایمان کے دامن کو ترک کر بیٹھتے ہیں اور اللہ میاں سے صرف نظر کرکہ پیروں اور مزاروں کی اتباع میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اللہ میاں کے بجائے ان سے دعائیں مانگنا شروع کردیتے ہیں اگر دعا نہیں تو ان کو وسیلہ ضرور بناتے ہیں ،چناچہ اللہ میاں فرماتے ہیں:
واذا سالک عبادی عنی فانی قریب ،اجیب دعوة الداع اذا دعان
فلیستجیبوالی ولیومنوابی لعلھم یرجعون(البقرة)
ترجمہ:
جب آپ سے میرے متعلق میرے بندے پوچھیں تو انہیں بتادیں
کہ میں ان سے قریب ہوں ،دعا مانگنے والا جب مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں
اس کی دعا قبول کرتاہوں،پھر مجھ ہی کو مانیں اور مجھ ہی پر ایمان لائیں۔

۔
بہر کیف ہمیں اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہئے کیونکہ وہ ہمارے نہایت قریب ہے اور اس ہی پر ایمان رکھنا چاہیے کیونکہ اس ہی میں ہماری ہدایت و فلاح مرموز ہے،اور ساتھ ساتھ ہمیں رسولﷺ کی تعلیمات پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا کیونکہ فرمان رسولﷺ ہے"جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی"پس معلوم ہوا کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری شرط ہے۔
لہذا ہمیں رجوع الی اللہ کی طرف توجہ کرنی چاہیے تاکہ اللہ میاں ہم سے راضی ہوں اور ہماری دعائیں بھی اس کی بارگاہ میں مقبول ٹھہریں ،اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :