تابناک ماضی ،المناک حال

ہفتہ 10 جولائی 2021

Naeemullah

نعیم اللہ

موجودہ دور میں رشتوں اور قربتوں کے مابین افراط و تفریط پر مبنی صورتحال کو دیکھ کرچشم و قلب رنجیدہ ہوجاتے ہیں،آج ایک مرتبہ پھر علی الصبح گھر کے وسیع و عریض لان میں جاری ٹھنڈی ہوا ،نفس کو محظوظ کر رہی تھی،کئی رنگوں کے گلاب اور پھولوں کی شاندار ترتیب کے ساتھ سجا ہوا لان عجب بہار دے رہا تھا کہ قلب و چشم ماضی کے دریچوں میں کھو کر مغموم ہوگئے۔


ہاں وہ ماضی کہ جب معاشرے میں اخلاقیات،آداب اور تہذیب کے آثار نمایاں تھے،نیکی کو بدی پر غلبہ حاصل تھا،اور تہذیب و شائستگی گھر گھر میں رچی بسی تھی۔
وہ ماضی!
جب گھریلو تہذیب کا عالم یہ تھا کہ گھروں اور حویلیوں کے زنان خانوں سے متصل صحن کی جانب مردوں کا آنا اچنبھے کی بات ہوا کرتی تھی،لڑکیاں صحن میں شیشم کے درخت پہ جھولا ڈال کر مزے سے جھولتیں،ایسے گھرانے کہ مرعوب کردینے والی تہذیب،شائستگی،اور سادگی ان کا خاصہ تھا،اگر یوں کہا جائے کہ وہ دور ہی انسانی تہذیب و شائستگی کا علمبردار تھا،تو اس میں کسی طرح کا شک نہ ہوگا،بچے اطاعت گزار،خدمت کی حس رکھنے والے اور بزرگ محبت و شفقت کا نمونہ۔

(جاری ہے)

!
وہ ماضی کہ جب بڑوں کے فیصلے اٹل ہوتے تھے اور والد کی موجودگی میں بیٹوں کو اپنی اولاد کے بارے میں فیصلے کرنے کا حوصلہ تھا نہ روایت،باہمی اعتماد اور محبت کی فضا میں رہنے والے ایک دوسرے سے اس طرح جڑے رہتے جیسے تسبیح کے دانے،علاحدہ علاحدہ ہوتے ہوئے بھی ایک دھاگے اور امام سے منسلک رہنے والے۔
آج جب ہم ماضی اور حال کے مابین تقابلی نگاہ ڈالتے ہیں،توقلب میں ماضی اپنی تہذیبی روایات کے ساتھ تابناک اور حال کے المناک ہونے کا احساس ابھرنے لگتا ہے۔


آج تہذیب و تمدن نے نہ جانے کتنے سمندر و صحرا عبور کرلیے ہیں،آج جو خوب ہے وہ کبھی ناخوب ہوا کرتا تھا،بزرگوں کے سامنے سر اٹھائے ،آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرنا،کوئی تہذیب نہ تھی،نشست و برخواست،کھانا پینا،ہنسنا بولنا،گھروں میں آنا جانا غرض یہ کہ ہر بات ہر کام کا سلیقہ ہوتا تھا،مگر وقت کی اڑان کے ساتھ سب ہوا ہوگیا۔
اس دور کے نوجوان لڑکے کتنے حیا دار تھے،آج کی نو عمر بچی میں بھی وہ حیا نہیں رہی!
معاشرتی بگاڑ کا یہ سیلاب رواں نہ جانے اور کیا کچھ بہا لے جائے گا!
بلکہ پورے معاشرے اور ہر گھر میں ایک ایسا سیلاب آگیا ہے کہ جس کے آگے بند باندھنا صدیوں کا زمانہ مانگتاہے۔


آج اس بات کا احساس بہ خوبی ہو رہا ہے کہ فراز سے نشیب پہ آنا کتنا آسان ہے اور اخلاق کی بلندیوں کے پہاڑ کو سر کرنا کتنا مشکل ہے۔
عصر حاضر میں برائیوں کا ایک ایسا طوفان چل پڑا ہے کہ اللہ کی پناہ!
زندگی ہر ہر شعبے میں بدی کا غلبہ ہوچکا ہے،نیکی ناپید سے ناپید ہوتی جا رہی ہے،حالیہ ایام میں بدی کا ظہور ایسے ایسے مراکز بھی سننے اور دیکھنے کا مل رہا ہے ،جو معاشرتی و دینی لحاظ سے خیر کے مراکز گردانے جاتے اور سمجھے جاتے ہیں اور انہیں معاشرے میں ایک بہت بڑا مقام حاصل ہے،جس سے حال کی المناکیاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔
اللہ تعالی اس دور پرفتن میں ہمارے حال پہ رحم و کرم فرمائے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :