
’آسمان کے نیچے بد ترین انسان‘
جمعرات 1 جولائی 2021

نازیہ نذر
ذرا سوچیں!مفتی اُس عالمِ دین کو کہا جاتا ہے جو اسلام کے حوالے سے فتوے دینے کا اختیار رکھتا ہو۔مفتی کے ایک فتوے سے کوئی فاسق، کافر یا واجب القتل قرار دیا جا سکتا ہے۔لہذا ایک مفتی کامتقی، بلند کردار اور پاکیزہ شخصیت کا حامل ہونا انتہائی ضروری ہے۔
مگرحیرت ہوتی ہے کہ آخریہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مفتی بھی ہواور شرمناک حرکات میں ملوث بھی؟ مدرسے کا معلم بھی ہو اور اخلاقیات سے عاری بھی؟ پاکیزگی سے دور بھی ہواور ناموسِ رسالت پر نکلنے والی ریلیوں کا مقرر بھی؟مگر کس مفتی،مولانا یا علامہ کی بات کریں کیونکہ واقعات کوئی ایک یا دو نہیں بلکہ ساحل نامی ایک این جی او کے مطابق پچھلے دس سالوں میں مدارس میں زیادتی کے359 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں اور جن واقعات کو دبا دیا گیا یا جن پر آواز ہی نہیں اُٹھائی گئی اُن کی تعداد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک بلاگ پڑھنے کا اتفاق ہواجس میں بلاگر نے اپنے بچپن کی تلخ یاد دہراتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اُسے ایک مدرسے میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور جب اُس نے گھر آ کر یہ بات بتائی تو کسی نے اُس کی بات کا یقین نہیں کیا۔نا جانے کتنے ہی بچے ایسے بھی ہیں جن کی آواز کو دبادیا جاتا ہے۔لیکن ذرا سوچیں کہ جن اداروں میں اللہ اور رسول کا نام لیا جاتا ہو اور جہاں مدرسے اور اسلام کو ایک ہی سمجھا جاتا ہو وہاں ایسے واقعات بچے کی نفسیات اور اسلام کے بارے میں اُس کی فہم پر کیا اثرات مرتب کرتے ہوں گے۔سوال یہ ہے کہ جو بچہ دین سیکھانے والے استاد کو ایسی حرکتوں میں ملوث دیکھتا ہو گاتو کیا وہ خود کبھی دین کا احترام کر پائے گا؟ایسے ماحول میں زیرِ تربیت بچے بڑے ہو کر پُر تشدد جلسے جلوس نہیں کریں گے، ناموسِ رسالت کی ریلیوں میں آگ نہیں لگائیں گے تو اور کیا کریں گے۔جب ناموسِ رسالت کے نام نہاد پروانے اور مدرسے کے سینئر استاد رذیل حرکتوں میں ملوث ہوں گے تو اُن کے زیرِ تربیت بچوں سے آپ کیسی امید رکھ سکتے ہیں؟ایسے ماحول میں پڑھنے والے بچوں سے آپ اسلام کی کس خدمت کی توقع کر سکتے ہیں؟رسرچ بھی یہی کہتی ہے کہ ایسے بچے جو بچپن میں زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اُن میں بڑے ہو کرانہی کاموں میں ملوث ہونے کا رجحان عام بچوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ مدرسے میں ہونے والے واقعات کو یہ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے واقعات تو لبرل اداروں میں بھی ہوتے ہیں مگر مدرسے میں ہونے والے واقعات کو اس لئے اُچھالا جاتا ہے تاکہ مدرسوں کو بدنام کیا جا سکے۔ادارے بدنام ہونے سے زیادہ آپ کو اس بات کی فکر کیوں نہیں ہوتی کہ مدرسوں میں اس طرح کے واقعات سے اسلام کے نام پر حرف آ تا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک تاثر عام ہے کہ مدرسہ، مولوی اور اسلام کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے اور ایسا اس لئے ہے کیونکہ لوگوں کی ایک اکثریت اسلام کا علم مدرسے یا مولوی سے ہی حاصل کرتی ہے، کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ اُس علم کی تصدیق کے لئے اصل کتابوں کے حوالہ جات کا مطالعہ ہی کر لیا جائے۔ اسی لئے ہمارے ہاں مولویت کو رواج ملا ورنہ اسلام میں مولویت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مولویت عیسائیت میں موجود پاپائیت سے بہت مشابہہ ہے۔ عیسائیت میں بھی چند مخصوص رسومات کے لئے اُجرت پرپادریوں کی تقرریاں کی جاتی ہیں جیسے کے شادی یا میت کی رسومات وغیرہ۔ ہمارے ہاں بھی یہ تصور موجود ہے کہ نکاح اور نمازِ جنازہ وغیرہ مسجد کے امام کے بغیر ممکن نہیں۔لہذا مساجد میں امام کی تقرری اجرت پر کی جاتی ہے۔حالانکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق کوئی بھی عاقل و بالغ مرد یہ امور سر انجام دے سکتا ہے اور اس کے لئے مدرسے سے سند یافتہ کسی امام کی تقرری کی ضرورت نہیں۔دورِ رسالت میں کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں کہ جب اُجرت پر مسجد میں کوئی تقرری کی گئی ہو۔مشہور عالمِ دین ڈاکٹر اسرار احمد کا کہنا تھا کہ’جب دین پیشہ بن جائے تو کوئی خیر باقی نہیں رہتی ‘۔حقیقت تو یہ ہے کہ دین جس شخص کے حلیے تک محدود ہو اوردل میں راسخ نہ ہوا ہو،اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ اُسی شخص سے ہے کیونکہ حلیہ بدل کر تو ابلیس بھی صفوں میں گھس جاتا ہے
سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ رسولِ پاکﷺ نے فرمایا کہ اندیشہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آ ئے گا جب اسلام میں اُس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا، قرآن میں اُس کے رسم الخط کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچے گا اُن کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہو جائیں گی۔اور اُن کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین انسان ہوں گے۔فتنہ اُنہی کے اندر سے برآمد ہو گا اور اُنہی میں گھس جائے گا (حوالہ:مشکوۃ)۔ڈاکٹر اسرار احمد اور چند علماء حق کے علاوہ یہ حدیث پاک آپ کسی کے خطبے میں نہیں سنیں گے۔لیکن غور و فکر کے لئے یہی حدیث کافی ہے۔
مگرحیرت ہوتی ہے کہ آخریہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مفتی بھی ہواور شرمناک حرکات میں ملوث بھی؟ مدرسے کا معلم بھی ہو اور اخلاقیات سے عاری بھی؟ پاکیزگی سے دور بھی ہواور ناموسِ رسالت پر نکلنے والی ریلیوں کا مقرر بھی؟مگر کس مفتی،مولانا یا علامہ کی بات کریں کیونکہ واقعات کوئی ایک یا دو نہیں بلکہ ساحل نامی ایک این جی او کے مطابق پچھلے دس سالوں میں مدارس میں زیادتی کے359 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں اور جن واقعات کو دبا دیا گیا یا جن پر آواز ہی نہیں اُٹھائی گئی اُن کی تعداد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ رسولِ پاکﷺ نے فرمایا کہ اندیشہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آ ئے گا جب اسلام میں اُس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا، قرآن میں اُس کے رسم الخط کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچے گا اُن کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہو جائیں گی۔اور اُن کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین انسان ہوں گے۔فتنہ اُنہی کے اندر سے برآمد ہو گا اور اُنہی میں گھس جائے گا (حوالہ:مشکوۃ)۔ڈاکٹر اسرار احمد اور چند علماء حق کے علاوہ یہ حدیث پاک آپ کسی کے خطبے میں نہیں سنیں گے۔لیکن غور و فکر کے لئے یہی حدیث کافی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.