منافقت کب تک؟

پیر 9 مارچ 2020

Nazia Nazar

نازیہ نذر

انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے میں پاکستان سرِفہرست ہے۔اورشاید اخلاقیات پر لیکچر دینے میں بھی پاکستانی قوم کا کوئی ثانی نہ ہو۔آج کل بھی پاکستان کا ہر نوجوان سوشل میڈیا پر یہ واعظ کرنے میں مصروف ہے کہ عورت کا کردار کیسا ہونا چاہئے؟ او ر تو اورپاکستان کے ایک مشہور ڈرامہ نگار بڑے تواتر کے ساتھ میڈیا پر ’ اچھی عورت‘ اور ’بری عورت‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔

شاید انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے غیرت کے نام پر قتل ہونے کی شرح کیا ہے؟اور شاید وہ اس بات سے بھی نابلد ہیں کہ پاکستان عورتوں کے لئے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں پہلے دس ممالک میں شامل ہے ۔ایسے حالات میں اچھی عورت اور بری عورت کی یہ تقسیم عورتوں کے خلاف مظالم کو مزید بڑھاوا دے سکتی ہے۔

(جاری ہے)

اور اگر وہ اس تقسیم کی بات کر ہی رہے ہیں تو یہ بتاتے ہوئے کیوں شرماتے ہیں کہ اسلام ہمیں اچھا مرد اور بُرا مرد کا فرق بھی بتاتا ہے۔

اسلام یہ بھی بتاتا ہے کہ پاک باز مرد کے لئے پاک باز عورت اور بد کردار مرد کے لئے بد کردار عورت۔
ساری رات انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے والے جب صبح عورت کی حیا پر تبلیغ کرتے ہیں تو بہت عجیب لگتا ہے۔جب گلیوں میں عورت کو گھور گھور کر اپنی نظریں خیرہ کرنے والے یہ تقاضاکرتے ہیں کہ ان کی بہن بیٹی پر کوئی نظر نہ اٹھائے تو حیرت ہوتی ہے۔جب غیر عورتوں سے معاشقے چلانے والے یہ تمنا کرتے ہیں کہ ان کی بہن بیٹی سے کوئی عشق بازی نہ کرے تو یہ خواہش بڑی ’ معصومانہ‘ لگتی ہے۔

اور تو اور جب یہ قوم ایک ایسے ڈرامہ نگار کو اپنا رول ماڈل بنا لے جو خود اپنی فلموں میں فحاشی کا پرچار کرے اور عورت کی حیا پر میڈیا میں لیکچر بھی دے تو ایسی قوم کے مستقبل سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟اسی حوالے سے ایک قصہ یاد آ گیا۔
ایک بار ایک شخص اپنے بچے کو لے کر ایک بزرگ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور میرا بچہ شکر بہت زیادہ کھاتا ہے اسے نصیحت کیجئے۔

بزرگ نے فرمایا کہ ایک ہفتے بعد آنا۔ جب ایک ہفتہ بعد وہ پھر اپنے بچہ کے ساتھ حاضر ہوا تو بزرگ نے بچہ کو نصیحت فرمائی کہ بیٹا شکر کھانا چھوڑ دو۔اس شخص نے حیرت سے عرض کی کہ حضور یہ نصیحت تو آپ ایک ہفتہ پہلے بھی فرما سکتے تھے۔ تو ان بزرگ نے فرمایا کہ تب میں خود بھی شکر کھاتا تھا۔اب شکر چھوڑی ہے تو نصیحت کر رہا ہوں۔
تو جناب عالی! ہماری قوم کا اصل مسئلہ فحاشی نہیں بلکہ منافقت ہے جو دیمک بن کر ہمارے کردار کو چاٹ رہی ہے۔

ہمیں اپنی پسند کا اسلام چاہئے، ہمیں نگاہ تو نیچی نہیں کرنی مگر عورت سے پردہ ضرور چاہئے۔ ہم انٹرنیٹ پر گھٹیا مواد دیکھنا تو نہیں چھوڑ سکتے ہاں مگر ہمیں گھر کی عورت حیا دار چاہئے۔ہم گھر سے باہر جتنے مرضی معاشقے چلائیں مگر گھر کی عورت با وفا ہونی چاہئے۔سوال یہ ہے کہ کیا کردار صرف عورت کا ہوتا ہے؟ کیا مرد کا کوئی کردار نہیں ہوتا؟کیا مرد کے لئے حیا دار ہونا ممنوع ہے؟
عورت سے حضرت فاطمہ الزھرا جیسا بلند مرتبہ کردار مانگنے والے خود بھی توحضرت علی مرتضی جیساکردار اپنائیں۔

جو تبلیغ زبان کی بجائے کردار سے کی جائے اسی سے نسلیں سنورتی ہیں۔بس ایک بارخود اپنے کردار سے حیا کا بیج بو کر دیکھیں یقین جانیں آپ کی نسلوں کی ہر عورت باحیا ہو گی۔ورنہ فقط باتیں بنا کراور نعرے لگا کر کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ دشنام طرازی سے فقط آپ کا اپنا کردار بے نقاب ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :