
آئینہ اُن کو دکھایا تو بُرا مان گئے۔۔۔
جمعرات 26 اگست 2021

نازیہ نذر
یہ تو تھی ایک’بے حیا‘ لڑکی کی داستانِ عبرت جس پر مجھے کوئی بات نہیں کرنی کیونکہ کسی بھی لڑکی کے کردار کو تار تار کرنے کے کارِ خیر میں شامل ہو کر مجھے ثوابِ دارین حاصل نہیں کرنا۔
(جاری ہے)
کیونکہ میں جس اسلام سے واقف ہوں اُس میں کسی عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی میں اُسکے لباس اورکردار کو نہیں ٹٹولا جاتا، میں جس پیغمبرِؐ اسلام کی سُنت پر گامزن ہوں اُن کا فرمان تھا کہ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو،میں نے جس قرآن کامطالعہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ بد گمانی سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔
لیکن شاید ہمیں خود گناہ سے بچنے کی بجائے دوسروں کو گناہ سے بچانے کی زیادہ فکرلاحق ہے۔ہو سکتا ہے کہ اس تحریر کے بعدمجھے اُس ٹک ٹاکر لڑکی کے ’آوارہ‘ ہونے کی مزید شہادتیں بھی موصول ہوں۔ویسے جتنی کوششیں اُس لڑکی کو بے حیا ثابت کرنے پر کی جا رہی ہیں اگر اتنی کوششیں اُس نقاب پوش پردہ دار خاتون کو انصاف دلانے کے لئے کی جائیں جسے 14اگست کو اُس کے محرم کی موجودگی میں بُری طرح ہراساں کیا گیا تو کتنا اچھا ہو۔درحقیقت یہی وہ شرمناک واقعہ ہے جس نے مجھے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا۔اُس پردہ دارخاتون کے ساتھ ہونے والے واقعہ کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔سوائے مبشر لقمان کے کسی نے اس پر آوازبھی نہیں اُٹھائی حالانکہ اس جرم میں ملوث شخص نے نہ صرف اُس خاتون کی عزت کومجروح کیا بلکہ پردے کے تقدس کوبھی پامال کیا۔عورت کو پردے میں محفوظ سمجھنے والے اگر اس خاتون کو انصاف دلانے میں ناکام ہیں تو پھر یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ بھیڑیے لباس دیکھ کر حملہ نہیں کرتے بلکہ وہ تو کمزور اوربے بس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
پاکستان عورتوں کے لئے محفوظ ملک ہے یا نہیں اسکا فیصلہ آپ کے یا میرے جذباتی ہونے سے نہیں ہو گابلکہ اس حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کیونکہ ریسرچ کی نہ تو کوئی جنس ہوتی ہے اور نہ ہی جذبات۔آپ تسلیم کریں یا نہ کریں مگر ایک تحقیق کے مطابق پاکستان خواتین کے لئے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پرپہنچ چکا ہے۔یہ سچ ہے کہ بھارت اس فہرست میں ہم سے بھی آگے ہے مگر یہ مت بُھولیں کہ بھارت اسلامی جمہوریہ نہیں ہے اور نہ ہی اُسے ریاستِ مدینہ بننے میں کوئی دلچسبی ہے۔ہمارے اربابِ اختیار کو یہ بھی شکایت ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ ہونے واقعات کو بہت اُچھالا جاتا ہے جبکہ ایسے واقعات مغرب میں بھی ہوتے ہیں۔تو ادب سے گزارش ہے کہ مغرب میں جرائم ضرور ہوتے ہیں مگر مجرموں کو فوری طور پر سزائیں بھی سنا دی جاتی ہیں،وہاں انصاف کے لئے آپ کو میڈیا پر ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی جبکہ ہمارے ہاں جب تک ویڈیودُنیا بھر میں وائرل ہو کر عورت کو اُس کی بچی کچی عزت سے محروم نہ کر دے یاسوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ نہ بن جائے تب تک مجرموں کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا جاتا۔اور اُس پر اگر یہ توقع رکھی جائے کہ عورت اپنے ساتھ ہونے ظلم پر دُہائی بھی نہ دے اور مظلوم کے لئے میڈیا پر آواز بھی بلند نہ کی جائے تو پھر شاید آپ محب الوطن تو کہلاسکتے ہیں مگر انصاف پسند مسلمان ہرگز نہیں۔اس ملک میں عورتوں کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے اگر میں اُس کے اعدادو شمار لکھنے بیٹھوں تو شایدقلم بھی شرما جائے۔لہذامیں اس تحریر میں صرف خواتین کوروزمرہ زندگی میں جنسی طور پرہراساں کیے جانے کے اعداد وشمارکے حوالے سے بات کروں گی۔ایک پی ایچ ڈی سکالر فریدہ انورنے حال ہی میں پاکستان میں عورتوں کو جنسی طور پرہراساں کیے جانے کے حوالے سے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے اُن کے مطابق لاہور، اسلام آباداور راولپنڈی میں 98 فیصدخواتین نے اپنی شناخت کو خفیہ رکھتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ اُنہیں بازاروں،راستوں، بس سٹاپوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مردوں کی طرف سے کسی نہ کسی طرح جنسی طورپر ہراساں کیا گیا اور 80فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ایسے واقعات کاذکرکسی سے نہیں کیا۔ یعنی جو مرد آج کل یہ نعرہ لگارہے ہیں کہ اُن کی عورتیں بھی گھروں سے نکلتی ہیں اور اُن کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتاتو اُنہیں یہی کہا جا سکتا ہے کہ لا علمی ہزار نعمت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والی بہت سی بد تمیزیوں اور غیراخلاقی حرکات کومعمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
دنیا کے مہذب ملکوں میں گھور کر کسی عورت کے خدوخال کا جائزہ لینے کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جانا تصورکیاجاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں عورت کو گھور کر دیکھنااورنظروں کا زنا کرنا توشریف مروں کے لئے بھی عین جائز سمجھ لیا گیا ہے اور اب عورت بھی اسے ہمارے معاشرے کی ایک روایت سمجھ کر قبول کر چکی ہے۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والے بے حرمتی کے واقعات کو اگر پارسائی اور بدکرداری کے تناظر پر پرکھا جانے لگا تو عورت کی پارسائی کے اتنے ہی پیمانے بنیں گے جتنے یہاں پر فرقے ہیں اورپھر خدا نخواستہ آپ کی بہن بیٹی سمیت اس جنونی معاشرے میں کوئی نہیں بچ سکے گا۔لہذا جرم کی سنگینی کو اگر یا مگرکی آڑ میں مت چھپائیں۔ظلم کا کوئی جواز نہیں ہوتا،ہاں مگر مظلوم کے ساتھ ہمدردی کرنا انسانیت کی دلیل ضرور ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.