خدارا! ہوش کریں۔۔۔

جمعرات 19 مارچ 2020

Nazia Nazar

نازیہ نذر

الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملائشیا میں کرونا کے شکار 673افراد میں سے دو تہائی وہ افراد ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں ہونے والے ایک تبلیغی اجتماع میں شرکت کی تھی جس میں جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ممالک سے آنے والے لوگ شامل تھے۔اس رپورٹ کے مطابق یہ اجتماع جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ممالک میں کرونا وائرس منتقل کرنے کا سبب بنا۔


کرونا وائرس کی تمام تروارننگز کے باوجودلاہور میں بھی گزشتہ دنوں ایک مذہبی جماعت کا سوا دو لاکھ افرادپر مشتمل اجتماع ہوا تھا جسے بعد ازاں مختصر کر دیا گیا۔کرونا وائرس کے حوالے سے اس مذہبی اجتماع کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گاکیونکہ کرونا وائرس کے اثرات دو ہفتے کے بعد سامنے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

چین، اٹلی اور سپین میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں دیکھنے کے باوجود پاکستان میں اس طرح کے مذہبی اجتماعات پر اصرار کرنے والوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے اوریہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے اسلام میں ظاہری عبادات کو انسانی جان پر مقدم کیا گیا ہو جو کہ سراسر غلط ہے۔

دوسری طرف صحیح مسلم و بخاری شریف کی احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو بارشوں میں کئی بار مسجد کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی تھی۔ اگرمحض بارشوں میں لوگوں کی تکلیف کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسجد کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے تو پھر کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے اور انسانی جانوں کو بچانے کے لئے ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
بہت سی عرب ممالک میں لوگوں کو مسجد کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔

سعودی عرب میں عمرہ پر پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے ،کویت میں تو اذان میں بھی ’صلاة فی بیوتکن‘ یعنی ’گھروں میں نماز ادا کریں‘ کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں کچھ علماء اس بات سے متفق نظر نہیں آتے۔تو پھرہمیں ماننا پڑے گا کہ یا تو ہم عرب ممالک سے زیادہ مسلمان ہیں یا پھر ہم اسلام کی تعلیمات سے قدرے نا واقف ہیں ۔اگر اسلام کا مطلوب محض ظاہری عبادات ہوتیں تو ابلیس سے بازی لے جانا ممکن نہیں تھا کہ وہ عبادات میں ہم سے بہت آگے تھا ۔

اسلام مخلوقِ خدا کی خدمت کا دین ہے یہ وہ مذہب ہے جو راستے سے کانٹا ہٹا دینے کو بھی بہت بڑی نیکی قرار دیتا ہے ۔مخلوق ِ خدا کو کسی بھی قسم کی تکلیف دے کر کسی بھی طرح اللہ کی قربت حاصل نہیں کی جا سکتی ۔تو ذرا سوچئے کہ کرونا وائرس سے انسانی جانوں کو بچانے کے لئے کیا اسلام میں اتنی گنجائش بھی آپ کو نظر نہیں آ رہی کہ مذہبی اجتماعات کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی ہی کر دیا جائے؟مذہبی اجتماعات کا مقصد اللہ کی یاد ہے،کیا گھروں میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر نہیں کیا جا سکتا؟چلتے، پھرتے،اٹھتے،بیٹھتے اللہ کو یاد کریں مگر کسی ایک جگہ مجمع نہ لگائیں۔


 پاکستان میں یہ بات گاہے بگاہے سننے کو ملتی ہے کہ’زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے۔کرونا سے موت لکھی ہے تو کون بچا سکتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔لیکن اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ کسی شخص کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے اور نہ ہی اسلام میں خود کشی کی اجازت ہے۔اس کے باوجود پاکستان میں لاپرواہی اور بے احتیاطی کا عام رجحان نظر آتا ہے۔

مارکیٹوں میں بلا ضرورت بھی آمدو رفت جاری ہے۔شادیاں ملتوی کرنے کا کوئی رجحان نظر نہیں آتا۔شادی ہالز پر پابندی ہے مگر گھروں میں ہی ایسی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے جو کہ کرونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے میں رکاوٹ ہے۔مغربی ممالک میں دس سے زیادہ کے اجتماع پر پابندی عائد ہے اور ہمارے گھروں میں تقریبات منعقد کر کے لاپرواہی کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔

اور اس سب کے پیچھے پھر وہی مذہب کا نام استعمال ہو رہا ہے۔خدارا اپنی لاپرواہ طبیعت کو اسلام کے لبادے میں مت چھپائیں۔اگر آپ کے خیال میں کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اللہ پر توکل کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر بیمار ہونے پر آپ کا توکل آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانے سے کیوں نہیں روکتا؟آپ چھوٹی سی تکلیف میں ہسپتالوں میں کیوں بھاگتے ہیں؟اسلام وہ مذہب ہے جو اونٹ باندھ کر توکل کرنے کا درس دیتا ہے۔

یہ وہ مذہب ہے جو یہ درس دیتا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی اُس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔تو پھر آپ ذرا سی احتیاط کر کے اپنی اور دوسروں کی جان کیوں نہیں بچا سکتے؟کیا اسلام اس میں رکاوٹ ہے یا پھر آپ کا اپنا غیر ذمہ دارانہ رویہ؟
اسلام کی تعلیمات کے مطابق جس علاقے میں وبا پھیل گئی ہو، نہ وہاں سے نکلنے کا حکم ہے اور نہ ہی وہاں جانے کا۔

آج دنیا جس لاک ڈاؤن کو کرونا سے بچنے کا طریقہ بتا رہی ہے وہ تو ہمیں ہمارے پیغمبرﷺ پہلے ہی بتا چکے ہیں مگر افسوس کہ مسلمان ہی اس پر عمل پیرا نہیں ہو رہے۔
 خدارا بلاضرورت گھروں سے نکلنے سے پرہیز کریں۔ چھٹیاں ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی رشتہ دار کے گھر چھٹیاں منانے چلے جائیں یا پھر اپنے رشتہ داروں کو اپنے ہاں اکٹھا کر لیں۔

چھٹیوں کا مقصد کرونا وائرس کے باعث ہونے والی ایمرجنسی کی صورتِ حال سے نبٹنا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے بھی درخواست ہے کہ خدارا کسی صورت اور کسی بھی ذریعے سے پاکستان آنے کی کوشش مت کریں۔پاکستان میں چونکہ مشترکہ خاندانی نظام رائج ہے لہذا ایک فرد کے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کا مطلب پورے گھرانے کا متاثر ہونا ہے۔کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے بد احتیاطی سے چونکہ دوسرے لوگوں کی زندگی اور صحت کو خطرات لاحق ہیں لہذا اس معاملے میں احتیاط ہم سب کا مذہبی و اخلاقی فریضہ ہے۔خوف زدہ ہرگز مت ہوں ، ہاں مگر ایک فوجی کی طرح ہر وقت چوکنا ضرور رہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :