دنیا میں دھوم مچانے والے پاکستانی کِنو کی پکار سنئے

پیر 25 فروری 2019

Noshaba Shehzad Masood

نوشابہ شہزاد مسعود

کِنو پاکستان کی ایکسپورٹ میں خاص اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ پھلوں اور سبزیوں میں سب سے زیادہ ایکسپورٹ ہونے والا پھل ہے لیکن اب آہستہ آہستہ بڑے ممالک میں پاکستان کنو کی ایکسپورٹ کم ہو تی جارہی ہے جن ممالک میں پہلے پاکستانی کنو کا راج تھا اس کی جگہ دوسرے ممالک سے آنے والے کنوآتے جارہے ہیں۔ اس کی کوئی ایک دو نہیں بلکہ بہت ساری وجوہات ہیں۔

جنہیں اگر آج ہم نظر انداز کرتے رہے تو بہت جلد ان ممالک میں ہمارا مارکیٹ شیئر کم سے کم ہوتا جائے گا تو کیوں نہ ان وجوہات کا ایک مختصر سا جائزہ لے لیا جائے ۔سب سے پہلی وجہ تو ہمارے کنو کی کوالٹی ہے کیونکہ ہمارے پاس وہی پرانے باغات ہیں جو عرصہ دراز سے چلے آرہے ہیں پرانی ورائٹیزہیں۔ وہی زراعت کے پرانے طریقہ کار ہیں باغات طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں۔

(جاری ہے)

دس درختوں میں کوئی دو درخت ایک جیسی ورائٹی نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ۔
اب اس کے حل کے لیے ضرورت ہے سرٹیفائیڈ نرسریوں کی تاکہ بیماریوں سے پاک اور ورائٹی جان کر پودے لیے جا سکیں۔ اب دوسرا مسئلہ ہے پانی کا جس کی کمی کا شکار نہ صرف ہم خود بلکہ ہماری زراعت بھی ہے ۔ نئے باغات صرف ڈرپ اپریگیشن پر لگنے چاہیے۔ جس سے نہ صرف ہم پانی کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں بلکہ فی ایکڑ زیادہ اور سستی پیداوار بھی لے سکتے ہیں۔

ہمارے درخت اور ان پر آنے والے پھل مختلف قسم کی بیماریوں اور مسائل سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ جب ہم عام طریقے سے کھلا پانی باغوں کو دیتے ہیں جسے فلڈ اریگیشن کہا جاتا ہے تودرختوں کی جڑیں دور دور تک پھیل جاتی ہیں طرح طرح کی جڑی بوٹیوں کو بھی اگلنے کا موقع ملتا ہے جو درخت کے لیے خوراک کی کمی اور دوسرے مسائل پیدا کرتی ہیںآ ج کر ایک ایکڑ پر کم درخت ہونے کی وجہ سے ایک گروورچار ٹن اندازاً پیداوار لیتاہے تووہی پیدا وار بیس سے چالیس ٹن کی ہو سکتی ہے۔

اگر ہم ڈرپ ایریگیشن پر آ جائیں مطلب یہ کہ پیداوار پانچ سے آٹھ گناہ زیادہ کی جا سکتی ہے جس سے نہ صرف پھل کی قیمت میں کمی آئے گی بلکہ گروور کئی گنااچھا منافع بھی دے سکے گا لیکن ڈرپ ایریگیشن نئے باغات پر ہی قابل عمل ہے ۔ پودے بنے پر لگتے ہیں نہ فاضل پانی ٹھہرتا ہے نہ ہی فالتو جڑی بوٹیوں کو اگنے کا موقع ملتا ہے ۔پودا پوری طرح زمین سے اپنی خوراک استعمال کر سکتا ہے پھر یہ ڈرپ ایریگیشن سسٹم مختلف اوقات میں فرٹلائزر کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے جو ایک معین مقدار کے مطابق تمام باغ کو دیئے جا سکتے ہیں۔

اب نتیجہ کم قیمت ،زیادہ منافع اور بہتر معیار ہے ۔ تمام دنیا میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے مگر اُس طرح نہیں جس طرح باقی دنیا ،آنے والے غذائی مسائل سے نمٹنے کے لیے کر رہی ہے۔اس میں میں یہ تو نہیں کہتی کہ ہر کام حکومت کرے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ٹریڈ کے حوالے سے یہ بہت سارے سیکٹر زمیں سے ایک ہے جسے حکومت کی سخت توجہ کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے سالوں میں اس پھل کے حوالے سے ہم اپنا کھوتا ہوا مقام واپس حاصل کر سکیں ۔

ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی ضرورت ہے ۔نئی ورائٹیوں کے لیے اور اُن ورائٹیوں کے لیے جو ہمارے پاس تو نہیں لیکن باقی دنیا میں پاپولر ہیں ۔گروور کے لیے ان سے آگاہی اور رسائی ضروری ہے تاکہ نئے باغات ان تمام ضروریات کو مد نظر رکھ کر لگائے جائیں ۔ریڈ بلڈ ،چکوترہ ،فروٹر،لیموں وغیرہ سٹرس کے خاندان کی وہ مثالیں ہیں جن کی وجہ سے ہم اپنے زر مبادلہ میں اچھا خاصا اضافہ کر سکتے ہیں۔

پھر ایک اور بڑا مسئلہ جو ہمارے کنو کی مانگ کم ہونے کی وجہ ہے ”بیج والا کنو “اور باقی دنیا میں بغیر بیج کے کنو اگایا جا رہا ہے جبکہ ہمارا کنو بیجوں سے بھرا ہوتا ہے اور بغیر بیج کنو کے لیے نئے علاقوں یا علاقے میں نئے باغات لگانے کی ضرورت ہے جس کی آب و ہوا اور مٹی اس پھل کے لیے ویسے ہی مددگار ہو جیسے پنجاب کے علاقے ضلع سرگودھا ،ساہیوال یا ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ ہیں ۔

بغیر بیج کے کنو پہلے سے بیج والے کنو کے باغات کے ارد گرد کے علاقوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔تو سٹرس گروور ان سب مسائل کے حل کے لیے حکومتی توجہ اور تعاون کے منتظر ہیں تاکہ آنے والے وقت میں سٹرس کی تمام اقسام اچھے پیمانے پر زرمبادلہ کما سکیں۔جب ہم ایکسپورٹ کی بات کرتے ہیں تو پھل کے ساتھ ساتھ پیک ہاؤس بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔

پاکستان میں کوئی 200کے قریب کنو کا پیک ہاؤس ہے جس میں بہت حد ہوئی تو کوئی بیس سے تیس چلتے ہیں وہاں پر ہم آ جاتے ہیں سٹینڈرڈز پر۔ہمیشہ کنو سیکٹر میں یہ مسئلہ رہا ہے یہ چھوٹے چھوٹے ایکسپورٹرز اور چھوٹے چھوٹے پیک ہاؤس والے انٹرنیشنل لیول پر کوالٹی وغیرہ کے مسائل بنا کر مارکیٹ خراب کرتے ہیں جبکہ بڑے پیک ہاؤس سٹینڈرڈ کے حوالے سے ان تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں جو انٹر نیشنل مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہے ۔

اب مشینیں چھوٹے پیک ہاؤس کی ہوں یا بڑے پیک ہاؤس کی ۔ سائز میں چھوٹی بڑی ہوسکتی ہیں پر ہوتی ایک جیسی ہیں ۔پھل بھی ایک ہی علاقے سے لیا جا رہا ہوتا ہے ۔ پیکنگ بھی ایک جیسی ہوتی ہے اور پھر بھی یہ مسائل۔ تو اس کی دو بڑی وجوہات ہیں پھلوں کی چھانٹی میں چھانٹ کم سے کم نکالنے کے چکر میں غیر معیاری اور کم شیلف لائف والے پھل کو بھی پیک کر دینا اور دوسرا اور بہت اہم مسئلہ پری کولنگ کی سہولت کا پیک ہاؤس پر نہ ہونا ۔

اب جب غیر معیاری انداز میں پیک کیا ہوا پھل انٹرنیشنل مارکیٹ میں پہنچتا ہے تو ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچنا ہے کیونکہ وہاں پر یہ برانڈ،وہ برانڈکی بات نہیں ہوتی ،بات ہوتی ہے تو پاکستانی کنو کی اور بدقسمتی سے یہ مسائل ہر آنے والے سال میں ٹریڈ پر منفی اثر ڈال رہے ہیں ۔ اب اگر مسئلہ اس طرح حل ہو کہ ان چھوٹے چھوٹے پیک ہاؤسوں پر سختیاں بڑھیں یا انہیں بند کروا دیا جائے یا ٹریڈ قوانین کو مزید سخت کیا جائے وغیرہ وغیرہ تومسئلہ حل نہیں ہو سکتاکیونکہ اگرکسی بھی بڑی ٹریڈ کے حوالے سے اگر کسی بھی ملک کو سٹڈی کیا جائے تو ٹریڈ اور زرمبادلہ کے بڑے بڑے نمبروں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے بہت سارے کاروباری لوگوں کا رول سامنے آتا ہے ۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ان چھوٹے کاروباری لوگوں کو حکومتی سپورٹ ملے ۔ مختلف قسم کی سبسڈی کی شکل میں جو صرف کاروباری سائز کے مطابق ہو۔مثلاًچھوٹے چھوٹے کولنگ یونٹس یا جو بھی پیک ہاؤس کی مختلف ضروریات ہیں پھر انہیں اس پر کوالٹی پر پابند کیا جائے۔یہ سبسڈی صرف اِن لوگوں کے لیے ہو جو اس کی ضرورت رکھتے ہیں ۔کوالٹی پر مقابلے کی فضا کو رواج دیا جائے تاکہ اس ٹریڈ کو مثبت انداز میں ترقی ملے ۔


پیک ہاؤس کے بعد ہے پیکنگ میں جدت : تو اس میں بھی مجھے افسوس ہے کہ جدت نہ ہونے کے برابر ہے ۔یہ بھی ایک اہم وجہ ہے انٹرنیشنل مارکیٹ میں پیچھے رہنے کی ۔ ابھی چائنیز کا نیا سال گزرا ہے جس میں کنو تحفةً دیئے جاتے ہیں یہ نیا سال پوری دنیا میں پھیلے ہوئے چین کے باشندے بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں اور پوری دنیا میں کنو بہت فروخت ہوتا ہے۔

اور بہت خوبصورت ،گفٹ باکسز ،مختلف اوزان اور سائزوں میں دیئے جاتے ہیں۔اس میں پاکستان اور مسائل سے ہٹ کر پیکنگ کی ضروریات پوری نہ سکنے کی وجہ سے بھی پیچھے رہا۔اب ایسا تو نہیں کہ ہمارے پاس ڈیزائن بنانے والوں کی کمی ہے،کمی ہے تو پیکنگ یونٹس کی جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو پیکنگ آج سے دس پندرہ سال پہلے بنارہے تھے آج بھی وہی ہے اگر کوئی اِکا دُکا نئے اندازکی پیکنگ بنا بھی دیتاہے تو وہ ان معیار کی نہیں ہوتی کہ اسے دنیا میں باقی ممالک سے آئے ہوئے کنو کے برابر کسی سپر سٹور کے شیلفوں میں رکھا جا سکے۔

بلکہ ہمارے کنو بیچارے تو مسکینوں کی طرح ایک طرف رکھے ہوتے ہیں۔جبکہ ہم بات کرتے ہیں لیڈر شپ کی ۔ تو میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ لیڈر شپ صرف لیڈروں کے بولنے اور انسانوں میں مقابلے بازی میں نہیں ہوتی ۔ لیڈر شپ ہمارے ہر چیز میں بولتی ہے ۔چاہے وہ کنو مالٹا ہی کیوں نہ ہو۔ساری دنیا میں ہمارے ملک سے آئی ہوئی چیز انٹرنیشنل مارکیٹ کے شیلفوں پر دوسرے ممالک سے آئی ہوئی پراڈکٹس سے آگے نہیں تو برابر ضرورہونی چاہیے ۔

اب پھل جب تمام مراحل جس میں کہ ہاروسٹنگ،گریڈنگ ،واشنگ ،انٹی فنگس،ویکسنگ اور دوبارہ سے گریڈنگ کر کے مختلف سائزوں میں سٹکر وغیرہ لگا کر پیک کر کے پری کولنگ وغیرہ تمام مراحل سے گزار کر کنٹینر پورٹ پر پہنچاتے ہیں تو بحری جہاز پر چڑھنے تک وہ چیکنگ اور مزید مختلف مراحل سے گزرتا ہے جس کے لیے پورٹ پر مختلف قسم کا عملہ ہوتا ہے ۔اب جب یہ بات کرتے ہیں تازہ پھل اور سبزیوں کی تو یقین مانیں جب تک شپ مِنٹ خریدار کے ہاتھ میں نہیں پہنچتی ،ایکسپورٹر سولی پر لٹکتا رہتا ہے ۔

یہ تازہ اجناس کا کام ہے اور تازہ ہی خریدار تک پہنچانا ہوتا ہے۔اب اگر ایکسپورٹ ہونے والا کنو ہی دیکھ لیں تو کسان کی محنت سے لے کر انٹرنیشنل مارکیٹ کے شیلف پر پہنچانے تک تو یقین مانیں آپ کا دل چاہے گا کہ آپ اسے کانس پر سجا کر رکھیں۔ میں نے بہت سارے ممالک وزٹ کیے ۔پھلوں اور سبزیوں کے ہر سٹیپ کو سٹڈی کیا اور اسے سمجھنے کی کوشش کی اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ کہاں کہاں ہم پیچھے ہیں ۔

اور مجھے خوشی ہے اس بات کی کہ ہمارے کسی بھی محکمے کے لوگ کسی سے کم نہیں ۔کمی ہے تو سسٹمز کی ،پورٹ پر اکثر اوقات مختلف مراحل پر پھلوں اور سبزیوں کی وہ حالت ہو رہی ہوتی ہے کہ ایکسپورٹر بیچارہ اکثر رو ہی پڑتا ہے ،کیوں نہیں ہمارے پاس وہ جدید مشینری ،جدید طریقے کہ جس پیار سے ایک پھل سبزی کو اُگایا جاتا ہے اور پیک کر کے پورٹ پر پہنچا یا جاتا ہے اسے اتنے ہی پیار سے خریدار تک پہنچایا جا سکے۔

تاکہ اس کی اچھی قیمت بھی لی جا سکے۔دوسرے ممالک سے آئے ہوئے پھلوں سبزیوں کے برابر رکھا جا سکے۔ہمارا پورٹ کا عملہ کیوں ان جدید خطوط پر ٹرینڈ نہیں کیا جا رہا کہ وہ پھلوں سبزیوں کو چیکنگ کے دوران اسی طرح خیال رکھے جیسے پیار سے اپنے گھر کے کچن میں رکھتے ہیں ۔ ان کے اندر اس احساس کو زیادہ سے زیادہ جگانے کی ضرورت ہے کہ ان سے آنے والا زرمبادلہ ہمارے لیے ،اور ہماری آنے والی نسلوں کو ایک اچھی زندگی فراہم کرے گا۔


اس کے بعد اب حکومت کی ذمہ داریوں میں ایک اور بڑی ذمہ داری ہے امپورٹرملکوں کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدے کرنے کی ۔ جیسے کہ کم سے کم ڈیوٹیز ، کوٹے کے مسائل وغیرہ تاکہ ہمارے پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں خریداروں کی قوت خرید میں رہیں اور جو مقابلہ ہمارے پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ ہے ،دوسرے ممالک سے آگے ہوئی پراڈکٹس کے ساتھ برابری پر رہیں۔


مارکیٹنگ کے لیے ہماری حکومت بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے جس کے لیے ہم تہہ دل سے اس کے شکرگزار ہیں جیسے ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی سبسڈی انٹرنیشنل نمائشوں پر سٹال لینے پر ڈیلی گیشن لے کر جانا وغیرہ ۔اسی طرح پاکستان ہارٹی کلچر بورلڈکمپنی بھی اپنی کاوشوں میں لگی ہے مگر یہ کافی نہیں ہو پا رہا ۔ ہمیں مزید ضرورت ہے اپنے ایکسپورٹرز کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی ۔

ہمیں پاکستان میں پھلوں سبزیوں کی بین الاقوامی نمائشوں کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوسکیں۔پچھلے ایک دو سال سے پنجاب کی حکومت اس طرح کی نمائش کا انعقاد کر رہی ہے جو ابھی تو کوئی بڑے پیمانے پر نہیں لیکن اسے آنے والے پانچ سالوں تک میں ایک بڑی بین الاقوامی سطح کی نمائش میں تبدیل ہوتے دیکھ رہی ہوں ۔ ہمیں یہاں بڑی بڑی نمائش کی کمپنیوں کو دعوت دینی چاہیے جیسے فروٹ لاجسٹکا،سیال فوڈز وغیرہ،یاپاکستان میں اس طرح کی کمپنیاں بننی چاہئیں جو بین الاقوامی سطح کی نمائشوں کا انعقاد کرسکیں۔

اس سے پاکستان میں بہت بڑے مزید کاروبارترقی کر سکتے ہیں ۔ جب ساری دنیا سے لوگ ان نمائشوں میں شرکت کے لیے آئیں گے تو پھر نہ صرف لوگوں میں پھلوں اور سبزیوں کے کاروبار کا مزید رجحان بڑھے گا بلکہ ان نمائشوں سے کھانے پینے کی مزید اشیاء جیسے بیکری ،جوسز،مصالحہ جات ،خوش میوہ جات اور مختلف انواع کی مزید چیزیں بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں جا سکیں گی۔

تمام دنیا میں پھیلے ہمارے سفارتخاے اس میں بہت مثبت اور معاون کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اللہ کی ذات نے ہمیں بہت نوازا ہے پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جو نہ صرف اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہے بلکہ وہ باقی دنیا کو بھی کھلا سکتا ہے۔ضرورت تو بس تھوڑی توجہ کی ،شفاف قوانین کی اور ہر وہ پراڈکٹ جو ہم ایکسپورٹ کر رہے ہیں اس پر الگ الگ باریک سے باریک وجوہات اور ضروریات پر حکومتی توجہ کی ہے پھر کون کہتا ہے پاکستان کم زرمبادلہ لاسکتا ہے اور کون کہتا ہے کہ پاکستان میں روزگار کی کمی ہے ۔

اگر صرف کنو کو دیکھ لیں تو ساڑھے چھ لاکھ بندہ اس انڈسٹری کے حوالے سے اس کے ساتھ منسلک ہے جن میں گروور،کھادیں ،باغوں میں استعمال ہونے والے اوزار ،پیک ہاؤس مشینری،کولڈ سٹوریج ،گاڑیاں ،ایندھن،پیکنگ والے ڈبے ، ٹوکریاں ،پیک میں استعمال ہونے والا مختلف قسم کا کاغذ،سٹکر ،ایجنٹس ،مختلف قسم کے مزدور ،حکومتی محکمے کے لوگ وغیرہ وغیرہ۔کتنے ہی روزگار ہیں سوچیں آج بات کر رہے ہیں ہم صرف ایک پروڈکٹ کی اور اس کے ساتھ وابستہ لوگوں کے کاروبار کی میں ختم کرتی ہوں ان الفاظ کے ساتھ ۔فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکِذِّبٰنِ ( تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :