وزیر اعظم کے نام ایک خط

جمعہ 18 ستمبر 2020

Noshaba Shehzad Masood

نوشابہ شہزاد مسعود

وزیر اعظم عمران خان صاحب میں ان لاکھوں لوگوں میں سے ایک ہوں جس نے زندگی میں پہلی دفعہ ووٹ ایک سوچ کے ساتھ دیا ۔ یہ ووٹ ان ووٹوں سے مختلف تھا جسے میں اور میرے جیسے بہت سے لوگ اس سے پہلے حکمرانوں کو دیتے رہے۔وہ ایک روٹین تھی کہ جو دوسرے سے بہتر لگا اسے ووٹ دے دیا لیکن یہ ووٹ PTIکو عمران خان صاحب کو ایک سوچ ۔ ایک امید کے ساتھ گیا ۔

یہ ووٹ ایک پوری ہسٹری کو دیکھ کر دیا گیا ۔ اس عمران خان کو جس کے بغیر دنیا کی کرکٹ ہسٹری نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ وہ عمران خان جو سماجی کاموں میں آئے تو شوکت خانم جیسا شاہکار سامنے آ گیا ۔ جو عمران خان صاحب سیاست میں آئے تو 20سال کی مستقل مزاجی ایک مقصد کی سامنے آتی ہے نہ اس میں ذاتی زندگی رکاوٹ بنی نہ ہی کوئی اور مشکل۔

(جاری ہے)

آپ کی نیک نیتی پر کسی کو کوئی شک نہیں ۔

لیکن میرے بھائی ایک کیپٹن ۔ ایک پارٹی کا لیڈر ۔ ایک شوکت خانم جیسے پروجیکٹ کا بانی جب ایک پاکستان جیسے ملک کا سربراہ بن کر آتا ہے ۔ ریاست مدینہ کا وژن لے کر آتا ہے تو اس کے پاس اس وژن کی Implimentationکے لیے واضح سٹریٹیجک پلان کیوں نہیں ہے۔ جب آپ نے نئے پاکستان کا وژن دیا تبدیلی کا نعرہ لگایا تو کیا اس کے لیے آپ کے پاس ہر ضروری محکمہ ۔ انسٹی ٹیوشن کے ریفارمرز کا پلان تھا ۔

تبدیلی کا تو یہ ہی مطلب ہے نا نئے نطام مضبوط نظام۔ اس پرانے بیمار اور کوڑھ زدہ سسٹم کے ساتھ آپ کیسے سوچتے ہیں کہ تبدیلی آئے گی یا نیا پاکستان بنے گا۔ دنیا میں جب انقلاب آئے تو سسٹم بدلے گئے ۔ تبدیلی یا نیا پاکستان ایک انقلاب کا نعرہ تھا لیکن سسٹم ابھی تک پرانے ہی چل رہے ہیں۔ تو بتائیں نا کہ تبدیلی کیسے آئے گی۔ آجکل موٹروے کے سانحہ کو ہی لے لیں ۔

بھائی آپ کے آنے کے بعد جو تھوڑا بہت تحفظ باقی تھا وہ بھی چلا گیا ۔ روز مرہ کے کیسز ڈکیتی کے ۔ چوری کے ۔ عصمت دری کے دیکھ لیں ۔
Safety Firstوزیر اعظم صاحب پولیس کا محکمہ وہ محکمہ ہے جس کے لیے اوپر سے نیچے تک آپ کو وژن اور پلان چاہیے ۔ میرا تو اپنا ذاتی تجربہ ہے پولیس کے پاس گیا کوئی معاملہ حل نہیں ہوا ۔ عدالتوں کے حالات ہی دیکھ لیں ۔
ہم پوری قوم کو تو آپ نے ارطغرل غازی دیکھنے پر لگا دیا جس کا مرکزی خیال ہی انصاف ہے ۔

ہم نے اس میں جو کچھ دیکھا ، خواہش کی ہمیں ہمارے ارد گرد ہوتا نظر نہیں آتا۔
بھائی آپ کو ضرورت ہے ارطغرل غازی والی جرات کی مستقل مزاجی کی منصفانہ طبیعت کی ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ پولیس کے محکمے سے لے کر تعلیمی محکمے۔ صحت کے محکمے ۔ عدالتیں۔ زراعت کے محکمے۔ کاروباری محکمے وغیرہ وغیرہ مملکت کے اندر مملکت بنے ہوں اور کچھ تو بن چکے ہیں۔
کیا ہو گا اسکے بعد پہلے تو عمران خان تھا۔ امید تھی۔ اب تو پاکستانی عوام کے پاس کوئی نیا عمران خان بھی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :