کیا حکمران ایسے ہوتے ہیں؟

جمعرات 3 دسمبر 2020

Nuzhat Tahir

نزہت طاہر

دنیا میں جہاں بھی نظر دوڑائی جائے تو یہ جواب ملنا مشکل ہو گیا ہے کہ اصل حکمران کون ہے۔ ایک حکمران تو وہ ہے جو اس پورے نظام ہستی کو چلا رہا ہے اور باقی وہ جو اپنے ملک کو چلا رہے ہیں۔ لیکن ان کا مقابلہ اس ذات سے ہو ہی نہیں سکتا۔
تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہمارے ہاں بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ جن میں سے ایک مثال حضرت عمرؓ کی بھی ہے۔

جو اپنا بھیس بدل کر اپنی عوام کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے قوانین بناتے تھے۔ جب خلافت کا بوجھ خود حضرت عمرؓ کے اپنے کندھوں پر آن پڑا تو بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں کے لئے ایسے مشعل راہ بنے کہ کوئی بھی حکمران ان کے آزمودہ اقدامات سے استفادہ کئے بغیر فلاحی ریاست نہیں بناسکا۔ اگر آج بھی اس مثال پر ہمارے حکمران عمل پیرا ہو کر اپنی حکومت چلائیں تو کیا ہی بات ہو۔

(جاری ہے)


آج ہمارے حکمران بس جملے بازی پر زور دے رہے ہیں۔ ملک کے حالات کی انھیں کوئی خبر نہیں ہے۔ مہنگائی کا طوفان عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ عوام سے کیے گئے وعدے ہوا میں اڑا دیے گئے ہیں۔ عوام کو انصاف فراہم کرنے والے اب ایک دوسرے پر جملہ سازی کر رہے ہیں۔ اب تو میڈیا پر یہی سب دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر اس میں عوام کا کیا قصور ہے۔ یہی کہ انھوں نے ووٹ دیا، ملک کے لیے ایک نئے حکمران کا انتخاب کیا۔


قرآن مجید میں بھی اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ حکمران اپنی عوام کے لیے جواب دہ ہو گا۔ یعنی کہ وہ حکومت کے لیے جو کچھ بھی کرے گا  وہ کل کو اس کے لیے جواب دہ ہو گا۔ مگر عوام بھی جواب دہ ہے مگر صرف اپنے کیے کی جواب دہ ہے۔ مگر آج حکمران کچھ سہی معنی میں کر ہی نہیں پا رہے تو وہ کل کو اس کے بارے میں کیا جواب دیں گے۔
بات تو پھر وہی ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران یا جیسے حکمران ویسی عوام۔

سب نے باریاں لی ہیں. سب آتے ہیں اور اپنا ٹائم پورا کر کے چلے جاتے ہیں۔ پیچھے عوام کو سب مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ آج تک کوئی حکمران ایسا نہیں آیا جو عوام کے لیے کار آمد ثابت ہوا ہو۔ یا جس کو عوام بار بار منتخب کرنے سے بھی نہ گھبرائے۔
ایک حکمران کا فرض ہے کہ وہ اپنے سکون کو چھوڑ کر عوام کے سکون کے لیے مناسب پالیسی تشکیل دے۔ وہ اپنی بھوک اور پیاس کو بھول کر بھوکے بلکتے شہریوں سے ہمدردی کے لیے انھیں ریلیف دے۔

ان کے لیے فنڈ مختص کرے۔ ان کے لیے ایسا سستا بازار لگوائے جو واقعی سستا ہو صرف نام سے سستا بازار نہ لگے۔ اگر ایسا حکمران بن جائے تو ملک کو اصل معنی میں ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ امید ہے کہ اس تحریر سے ہمارے حکمرانوں پر اثر پڑے اور وہ اس بارے میں سوچیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :