جہیز ایک لعنت ہے

بدھ 18 نومبر 2020

Nuzhat Tahir

نزہت طاہر

ماں باپ کا گھر بکا تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی نامراد ہے یہ رسم جہیز بھی
کیا جہیز ایک لعنت ہے؟ زمانہ قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ لوگ بیٹیوں کو جہیز دیئے بغیر رخصت نہیں کر پاتے۔ سسرال والے یہ کہہ کر احسان کرتے ہیں کہ بس اپنی بیٹی کو لینے آئے ہیں، ساتھ جانے والا سامان تو بس ایک دکھاوا ہے۔ بیٹی کے پلو سے یہ بات باندھ دی جاتی ہے کہ اب وہی تمہارا گھر ہے اور ہماری عزت کی لاج رکھنا۔


جہیز کے حوالے سے فرمائشی تعلقات تو اب قائم نہیں ہوتے، مگر ہم تھوڑی مانگ رہے ہیں جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ پھر وہی لوگ آنے والا سامان بخوشی قبول کر لیتے ہیں اور لانے والی کا شکریہ ادا کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔دنیا میں کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں جہیز لڑکے والوں سے وصول کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

خصوصا افریقہ اور چین میں یہ روایت عام ہےکہ لڑکی والوں کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق لڑکے کو جہیز دینا پڑتا ہے۔

آج کل کی نوجوان نسل اس رسم کو غلط تصور کرتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ جہیز نہیں بلکہ ان کی قیمت ہے۔
ہمارے ہاں رواج ذرا الٹا ہے۔ لڑکی والے بیٹی تو دے ہی رہے ہوتے ہیں ساتھ ہی ساتھ جہیز بھی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی بیٹی کو سسرال میں عزت نہیں ملتی، جہاں ملتی ہے وہاں اسے احسان سمجھ کر وصول کیا جاتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں میں اپنے خاندان کو کیسے بھول سکتی ہوں۔

ہمارے بزرگوں سے یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ جہیز ایک دکھاوا ہے۔ مگر پھریہی لوگ اپنی بیٹیوں کو ٹرک بھر بھرکر سامان دیتے ہیں تاکہ خاندان والے باتیں نہ بنائیں۔اور جن کے گھر وہ سامان آنا ہوتا ہے وہ پرانے سامان کو ایسے بیچ رہے ہوتے ہیں جیسے سالوں سے اسی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکن لانے والی کی حیثیت صرف اس کمرے تک رہ جاتی ہے جس میں اسے ساری زندگی گزارنی ہوتی ہے۔

جہیز تو وہ لاتی ہے لیکن عزت اس سے زیادہ اس گھر میں رہنے والوں کی بن جاتی ہے۔ اس معصوم کو لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی وہ مقام نہیں ملتا جس کی وہ حق دار ہوتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ جس لڑکی کے ساتھ جتناسامان جاتا ہے اس کی اتنی ہی عزت کی جاتی ہے۔ ہاں، یہ عزت کب تک کی جائے گی یہ سسرال والوں پر منحصر ہے۔ دل کیا تو عمر بھر اس کے تعبیدار رہیں گے ورنہ گھر لا تے ہی طرح طرح کی باتیں سنا دیں گے۔

جن کے ساتھ جہیز نہیں جا پاتا یا کم جاتا ہے، ان کی داستانیں ہم اور آپ اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں۔ ایسی عورتیں یا تو چولہا پھٹنے سے مر جاتی ہے یا سیڑھیوں سے پھسل کر گر جاتی ہیں یا گھر سے نکالی جاتی ہیں یا غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ جو اس قدر انتہا پسند نہیں ہوتے وہ بیوی کو کسی بھی فرمائش پر اسے ساری عمر تعنوں کی نوک پر رکھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔


اس مہنگائی کے دور میں جہاں شادی کرنا مشکل ہو گیا ہے وہیں جہیز بھی گھر میں فاقے کر کے بنائے جاتے ہیں۔ غربت کے مارے لوگ تو بیٹی کی پیدائش کا سن کر سوگ مناتے ہیں۔ اس کی پیدائش سے لے کر جوانی تک ایک تنگ و تاریک کوٹھری کے کونے میں پڑھی سندوکچی میں سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر رخصتی کے وقت اس کے سسرال والوں کو پہلے ہی سامان پہنچا دیا جاتا ہے۔

اور پھر سسرال والے اسی کے سامانکو استعمال کرتے ہوئے سارا دن اسے جلی کٹی سناتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی دی ہوئی جہیز کی فہرست تاعمر کسی کے باپ کی کمر سیدھی نہیں ہونے دیتی۔آخر کیوں ایسا رواج چل رہا ہے؟ کیا حکومت کی جانب سے پیشکیے گئے بل پر عمل درآمد کی جائے گی یا نہیں؟ یعنی بات تو یہی ہے کہ جہیز ہے تو لعنت پر مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔ اس پر کبھی سوچیں، شاید آپ کو بھی آپ کے سوالات کے جوابات مل جائیں اور پھر آپ واقعی جہیز مخالف بن جائیں۔  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :