کورونا وائرس کی وباء سے بوڑھے افراد کو جان لیوا خطرات لاحق

ہفتہ 11 اپریل 2020

Prof. Dr. Asghar Zaidi

پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی

 پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک (کم اور متوسط آمدن والے)کے بزرگ افراد کوکورونا وائرس جیسی عالمگیر وباء کے خطرناک اثرات سے بچانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
کورونا(Covid-19) نامی اس مہلک اور انجان وبا کے پھیلا وکو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرااس کے باوجود یہ بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اس وائرس سے موت کا سب سے زیادہ خطرہ بڑی عمر کے افراد کو لاحق ہے، اگرچہ ابھی تک کوئی ایسا واضح ثبوت نہیں ملا،جس سے یہ معلوم ہو کہ نوجوانوں کی نسبت بوڑھے لوگ اس وائرس کا جلد شکارہوتے ہیں یا نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر بوڑھے اس سے متاثر ہو جائیں تو بھلِے ان کی صحت عام حالات میں اچھی ہی کیوں نہ رہی ہو۔

ان کے لیے جاں سے گزر جانے کا امکان جوانوں کے مقابلے میں زیادہ ہی رہتا ہے، اسی(80) برس یا اس سے زائد عمر کے بزرگ لوگ تو خطرے کی انتہائی حد پر کھڑے ہیں۔

(جاری ہے)

چائنہ سینٹر فار ڈیزیز ایڈ پریوینشن کی طرف سے چوالیس ہزار سے زائد مریضوں پر کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی عمر زیادہ ہو تو ان میں شرح اموات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

چین میں کورونا وائرس کے باقاعدہ تشخیص شدہ کیسوں میں،جہاں مریضوں کی عمریں اسی برس تک تھیں،وہاں شرح اموات پندرہ فیصد تک جا پہنچی۔ جبکہ ایسے گروپ جن کے مریض چالیس برس سے کم عمر کے تھے، ان میں موت کی شرح میں نمایاں کمی پائی گئی۔
اسی طرح اگر پھیپھڑوں کی سوزش،پلمونری ہائپرٹینشن یا امراض قلب جیسی معیادی بیماریوں میں مبتلا افراد کو یہ وائرِس لگ جائے تو ان کی موت کا ڈر بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بوڑھے افراد کے لے خطرہ اس لیے بھی زیادہ ہو سکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ انسان کا مدافعتی نظام کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں بیچارے بزرگ اور ان کے اہل خانہ بوکھلا سے جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ کیا اضافی احتیاطی تدابیراختیار کریں۔اچھی خبر یہ ہے کہ جیرونٹولوجسٹس، جنریٹٹریشنز اور متعدی بیماریوں کے ماہرین کے پاس ان مسائل کوحل کرنے کے لیے بہترین تدابیر موجود ہیں۔

*کیا بہت دیر ہو چکی ہے؟* 
اساتذہ،طبی ماہرین اور جنرل پریکٹیشنرزکی ایک آن لائن رضا کار کمیونٹی نے معمر افراد سے جڑے اس مسئلے کے لیے ویب پیج تیار کیا ہے، جہاں ترقی پذیر ممالک کے عمررسیدہ افرادکوکورونا وائرس کی وجہ سے لاحق خدشے کی سنگینی کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ برٹش میڈیکل جرنل (بی ایم جے) کے حالیہ ادارتی مضمون میں بھی پاکستان جیسے نیم ترقی یافتہ معاشرے کے بزرگوں کی صحت اور معمولات زندگی پر،کورونا وائرس کی وجہ سے پڑنے والے تباہ کن اثرات کی سنجیدگی کو نمایاں کیا گیا۔

ادھر الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل (اے ڈِ ی آئی) ڈیمنشیا سے متاثرہ افراد کے لیے خبریں اکٹھی کرتا ہے،ان کے لیے وسائل مہیا کرتا ہے۔ان کو کہانیاں سناتا ہے۔کبھی انہیں مشورے دیتا ہے تو کہیں ان کا سہارا بنتا ہے۔ اے ڈی آئی کا ایک نیا ویب پیج کورونا وائرس سے جڑے معاملات پرمستقل اور باقاعدگی کے ساتھ تازہ ترین تجاویز دینے کے لئے وقف کر دیا گیا ہے۔

ہیلپ ایج انٹرنیشنل جیسا ادارہ اپنے قومی نیٹ ورک ممبروں کے ذریعے کورونا وائرس کے تناظر میں بوڑھے لوگوں سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ وبا پھوٹتے ہی،معمر افراد کو خود حفاظتی انتظامات سکھانے کے لیے مقامی زبانوں میں مطلوبہ پروگرام بنا لیے ہیں۔ 
یہ اور بات ہے کہ اٹلی اور سپین میں مطلوبہ مہارت کی عدم دستیابی اور ضروری حفاطتی انتظامات کی غیر موجودگی کے سبب یہ خوفناک واٰئرس اپنی لپیٹ میں آ جانے والے عمر رسیدہ افراد کی زندگیوں کو پہلے ہی بھاری نقصان پہنچا چکا ہے۔

اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود،شاید اب بھی کم از کم ان ممالک میں،جہاں اس وائرس نے ابھی اپنے پنجے گاڑنے شروع ہی کیے ہیں، وہاں جس حد تک بھی ممکن ہولوگوں میں آگاہی پیدا کی جاسکتی ہے۔یہاں کی روزمرہ زندگی کی روٹین میں ارادی پابندیا ں مناسب پرہیزاور سماجی فاصلہ قائم کرنے جیسی احتیاطی تدابیر کے ذریعے انفیکشن کے پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی کی شرح کو کم کرکے اور معیار زندگی پر اس وائرس کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کے خلاف بزرگو ں کی مدافعتی صلاحیت کو بہتر بنا کر ہمارے بہت سے بڑوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

 
*پاکستان کی صورتحال خاص طور پر کیوں پریشان کن ہے؟* 
پاکستان میں بوڑھے لوگوں کے حقوق کے بارے میں شعور بہت کم ہے۔دنیا بھر میں صرف 15 ممالک ایسے ہیں جہاں عمر رسیدہ افراد کی تعداد دس ملین یعنی ایک کروڑ سے متجاوز ہے اور پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت آبادی کا سات فیصد(تقریبا 14 ملین) یعنی تقریباایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں لوگوں کی متوقع اوسط عمر میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کی آبادی میں بزرگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سنہ 2050 میں سولہ فی صد یعنی چوالیس ملین افراد ساٹھ سال یا زیادہ عمر کے ہوں گے۔ پاکستان میں صحت عامہ کی نگہداشت (ہیلتھ کیئر) کے پسماندہ نظام کو پیش نظررکھتے ہوئے، اس امر کا اچھا خاصا خدشہ موجود ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے صحت کے مختلف مسائل کا شکار ہونے والے معمر افراد کو دوسروں سے الگ تھلگ کر کے قرنطینہ یا خانہ تنہائی میں رکھنا پڑ جائیگا۔

پاکستان میں بوڑھے افراد کو خصوصی خدمات کی ضرورت کیوں ہے؟۔پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اگر بزرگوں کو علیحدہ کرنے یا قرنطینہ لے جانے کی کوشش شروع کی جائے تو پھیلے ہوئے مشترکہ خاندانی نظام اور رشتے ناطوں کے روایتی بندھنوں کے سبب انہیں ان کے گھر والوں سے الگ کرنا اگرناممکن نہیں تو مشکل ترین مرحلہ ضرور ثابت ہوتا ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ گنجائش نکل پاتی ہے کہ ان کے ذاتی یا خاندانی گھر ہی میں الگ خلوت گاہ بنا نے کی اجازت مل جائے۔

ہو سکتا ہے کہ غریبوں اور کم آمدنی والوں کے لیے ایسا انتظام کرنا ممکن نہ ہو سکے۔ پسماندہ شہری علاقوں میں یہ جہاں چھوٹے چھوٹے مکانوں میں بڑے بڑے خاندان رہائش پذیر ہوتے ہیں،یہ صورتحال اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں یہ ایک عام رواج ہے کہ بزرگ افراد خود سے چھوٹے افراد سے بغل گیر ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسی روایت ہے کہ جس سے وائرس پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

پھر یہ بوڑھے لوگ مساجد میں پنجگانہ نماز کے اجتماعات کومیل ملاقات کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کو اس طرح کے مذہبی اجتماعات میں شرکت سے روکنا کارِ حرام گردانا جاتا ہے۔
ایسے میں بزرگوں کو گھروں سے نکال کر کسی علیحدہ قرنطینہ کی سہولت میں لے جانا ممکن ہو بھی جائے تو یہ عمل ایک بزات خود نئی اور اضافی احتیاط کا تقاضا کرنے لگتا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ ان بڑی عمر کے لوگوں میں سے بیشتر پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور اپنی ذاتی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے بھی عموما کنبے کے نوجوانوں پر کلی انحصار کرتے ہیں۔ اگرکہیں قرنطینہ میں کسی بھی وجہ سے اشیائے ضروری کم پڑجائیں یا یہاں داخل افراد کی تعدادزیادہ ہو جاتی ہے تو ان بزرگوں کو خوراک کی دستیابی اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان بزرگوں کو پھیپھروں اور نظام تنفس سے متعلق کسی چیزکی اچانک ضرورت پڑ جائے یا انہیں اپنی نقل و حرکت میں دشواری کا سامنا ہوتو حفظِ صحت کاپسماندہ نظام مطلوبہ سہولت کی مانگ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ حد یہ ہے کہ پاکستان کے نظام صحت عامہ کو معمول کی روز مرہ کی زندگی میں بھی کہیں خصوصی نگہداشت فراہم کرنی پڑ جائے تو ضروری اور بنیادی آلات کے مطلوبہ مقدارمیں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کی گنجائش بھی نہیں نکل پاتی، جیسے وینٹیلیٹروں کی عدم دستیابی۔

اگرچہ فی الحال نئے سازوسامان کے حصول کے لئے اضافی کوششیں کی جارہی ہیں،تاہم، ہماے شعبہ طبی خدمات کیلیے ممکن نہیں ہو گا کہ اگر وائرس تیزی سے پھیلتا ہے تو چین،اٹلی اور سپین کی طرح یہاں ضروری دیکھ ریکھ کرنے ہی میں کامیاب ہو سکے۔
عمر رسیدہ افراد کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ دوسروں کی نسبت وہ خود زیادہ خطرے میں ہیں تا کہ وہ اپنی حفاظت کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلے کریں۔

مقامی انتظامیہ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں بڑی عمر کے زیادہ تر افراد ان پڑھ ہیں۔ لہذا ممکنہ طور پر عوام الناس میں آگہی پھیلانے کے لیے چلنے والی کوئی مہم، معاشرے کے عمر رسیدہ افراد کو متاثر نہ کر سکے گی جب تک کہ اس کو خاص طور پر بوڑھے لوگوں کے لیے ڈیزائن نہیں کیا جائے گا۔ معاشرے میں کورونا وائرس اور اس کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے جتنی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان سب میں بزرگ افراد کا انداز فکر واضح طور پرشامل کیا جانا از بس ضروری ہے۔

 
 آخر میں، اس بات کا کافی خطرہ ہے کہ ایسے متعدی وائرس کے اثرات بوڑھوں لوگوں کی سماجی حیثیت اور اہمیت میں کمی یا خاتمے کا سبب بن جائیں یا ان کی وجہ سے جوانی اور پیری کے امتیازات زیادہ واضح ہونے لگیں، یہاں تک کہ بوڑھوں کی جسمانی کمزوری ان کے لیے بدنامی یا کمتری کی وجہ بنا دی جائے۔یہاں ہمیں اس بات کا بھی اعلان کرنا چاہیے کہ بڑوں کو بدنام کرنے یا کم تر جاننے والوں کے لئے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے علاج معالجے اور روک تھا م میں کیے جانے والے انتظامات میں عمر رسیدہ بیمار افراد کو درکار مخصوص آلات اور تخصیصی طبی معاونت کی فراہمی کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف پاکستان جیسے ناکافی وسائل رکھنے والے ملک ہی میں نہیں بلکہ بہت ترقی یافتہ امیر ترین ممالک میں بھی سب سے زیادہ خطرے کی زد میں گھرے ہوئے اس گروہ کے لیے کسی طرح کا کوئی مخصوص ہدایات نامہ یا تخصیصی ضابطہ کار منظر عام پر نہیں آسکا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے بزرگوں کا خیال رکھنے کی خاطرقومی سطح پرپیرانہ سالی کے ماہرین کا ایک گروہ تشکیل دیا جائے جو اس طرح کی قدرتی آفات کے نتیجے میں بوڑھوں کی بہبود کے لیے خصوصی اقدامات وضع کر سکے۔آئندہ وقتوں میں ا ن اطلاعات یا نئی معلومات اور نئے علم کی روشنی میں ماہرین کا یہ گروہ پاکستانی قوم کے اس کمزور اور غیر محفوظ حصے کی مخصوص ضروریات کو جانچ سکتا ہے،ان کے لیے موثر علاج معالجے کی تکنیک ڈھونڈنے کا راستہ دکھا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :