
دامن کو ذرا دیکھ۔۔۔۔
بدھ 12 نومبر 2014

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
سیاسی حلقوں میں اُن کے دھرنوں کا مذاق اُڑایا جانے لگا ہے ،پارٹی میں واضح انتشار ہے اور حکومت بھی اُن کے دھرنوں کو سیریس نہیں لے رہی۔
اُنہوں نے کہاہے کہ اگر دھاندلی کی انکوائری سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن کرے اور کمیشن میں ایم آئی اور آئی ایس آئی بھی شامل ہو تو کمیشن کی رپورٹ تک وہ دھرنا تو ختم نہیں کریں گے لیکن نوازشریف صاحب سے استعفے کا تقاضہ بھی نہیں کریں گے ۔اگر کمیشن کا فیصلہ آیا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو میاں صاحب کو استعفیٰ دینا پڑے گا ۔محترم وزیرِ اعظم تو4 ماہ پہلے ہی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھ چکے ہیں لیکن ایک طرف تو خاں صاحب چیف جسٹس آف پاکستان محترم ناصر الملک پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ نواز شریف کے ہوتے ہوئے کیسے غیرجانبدار انکوائری ہو سکتی ہے اور اب تو اُنہوں نے یہ غیرآئینی مطالبہ بھی کر دیاہے کہ کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی بھی شامل ہو۔خاں صاحب کے اِس مطالبے سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں سپریم کورٹ پر بھی اعتبار نہیں اسی لیے وہ جوڈیشل کمیشن میںآ ئی ایس آئی اور ایم آئی کی شمولیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ خاں صاحب نے خود ہی مراجعت کی ساری راہیں مسدود کر دی ہیں اور اب وہ اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں اپنے لیے ہمدردی پیدا کرنے کی خاطر ایسی شرائط پیش کر رہے ہیں جن پر عمل درآمد ناممکن ہو ۔شاید وہ اِس انتظار میں ہیں کہ حکومت سانحہ ماڈل ٹاوٴن جیسی کوئی حماقت کر بیٹھے تاکہ اُن کے دھرنوں میں پھر سے جان پڑ جائے۔ اُدھر حکومت ایسی کسی حماقت کے ”موڈ“میں نظر نہیں آتی اِس لیے نظر یہی آتا ہے کہ خاں صاحب کی نرگسیت ،انا، ضداور غصّہ اُن کی ندامت پر ختم ہوگا ۔شریف نے کہا ”لیکن خاں صاحب کے جلسوں میں تو ٹھیک ٹھاک رونق ہوتی ہے اور مجمع بھی چارج“۔میں نے کہا کہ عطااللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے ”لوگ میری تقریر سُننے کے لیے جوق در جوق آتے ہیں لیکن ووٹ جناح کو دے آتے ہیں “۔پاکستان کی انتخابی تاریخ سے عیاں ہے کہ جلسے جلوسوں اور ریلیوں سے الیکشن نہیں جیتے جاسکتے ۔شریف نے کہا ”خاں صاحب سمیت ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے تو سبھی کرتے ہیں لیکن آج تک بدل تو کوئی بھی نہیں سکا“۔میں نے کہا کہ یہ بجا کہ ملک کی تقدیر کوئی نہ بدل سکا ۔خاں صاحب نے بھی چھ ماہ میں خیبر پختونخوا کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیا لیکن اٹھارہ ماہ گزرنے کا باوجود بھی معاملہ جوں کاتوں ہے۔بَدقسمتی سے ہمیں ایسا کوئی رہنما نہیں ملا جو ملک کی تقدیر بدل سکے ۔ساٹھ کی دہائی میں کوریا کی ایکسپورٹ ساٹھ ملین اور پاکستان کی دو سو ملین ڈالر تھی ۔تب کوریا کے ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان سے یہ سیکھنے کے لیے آئی کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا راز کیا ہے ۔آج کوریا کی ایکسپورٹ لَگ بھَگ چھ سو بلین ڈالر اور پاکستان کی صرف دو سو بلین ڈالر ۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان 35 سالوں تک آمریت کے دیوِ استبداد کے جبڑوں میں رہا ۔اسی دوران بھارت سے دو جنگیں بھی ہوئیں اور ملک بھی دو ٹکڑے ہوا لیکن سیاسی جماعتوں نے بھی معاشی میدان میں کوئی کارنامہ سرانجام نہ دیا ۔چشمِ بینا حسرت ویاس کی تصویر بنی سب کچھ دیکھتی رہی لیکن صاحبانِ مکروریا اپنی ہی جھولیاں بھرتے رہے ۔جب اُمید کی کرن پھوٹی اور یہ محسوس ہونے لگا کہ میری دھرتی کی بے دَم مامتا کی فریاد سُنی جانے والی ہے ۔دستِ طلب پر اُگتی محرومیوں کی جگہ اُمیدوں کے پھول کھلنے والے ہیں اور کاسہٴ اُمید لبالب ہونے والا ہے توخاں صاحب اور قادری صاحب ترقی کی راہ میں سدِ سکندری بن گئے ۔اُنہوں نے قوم کومایوسیوں اور محرومیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کی کوشش توکی لیکن باشعور قوم نے اُنہیں بُری طرح مسترد کر دیا ۔چین کے صدر تو دھرنوں کی وجہ سے پاکستان نہ آ سکے لیکن میاں نوازشریف 12 نشستوں والے چھوٹے طیارے میں انتہائی مختصر وفد کے ساتھ چین جا پہنچے اور کامیابیاں سمیٹ لائے۔چینی حکومت کے ساتھ 45 ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کے 19 معاہدے ہوئے اورچینی قیادت نے پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی کی تجدید کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان کی ساری ترقی اور معاشی استحکام چین کی حکمتِ عملی کا بنیادی ستون ہے“۔چینی صدرشی جن پنگ نے پاکستان کو”آہنی دوست“ قرار دیتے ہوئے کہا ”چین پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ہر ممکن تعاون کرے گا اور مستقبل میں دونوں ملکوں کی دوستی مزید مضبوط ہوگی “۔چینی قیادت نے پاکستان کو آہنی دوست اُس وقت قرار دیا جب پاکستان کو اِس کی اشد ضرورت تھی ۔امریکی وزارتِ دفاع کی حالیہ اشتعال انگیز رپورٹ اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں چین کا پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی کا عہد کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔اگر چین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد ہوگیا تو پھر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی اور غربت و افلاس قصہٴ پارینہ ۔محبِ وطن عمران خاں صاحب سے قوم یہی توقع کرتی ہے کہ وہ اپنے دھرنے ختم کرکے ترقی کے اِس سفر میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.