یہ وہ سحر تو نہیں

جمعہ 2 جولائی 2021

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

یہی سنتے سنتے عمرِعزیز کے بہت سے ماہ وسال بیت گئے کہ
ہوائے دَورِ مئے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
راہ تکتے تکتے آنکھیں پتھرا چکیں مگر جا بجا خزاوٴں کے ڈیرے اور بادِسموم کے تھپیڑے کہیں بادِبہاری کا نام ونشاں نہیں۔ شاید بہار بھی زورآوروں کے گھر کی باندی بن چکی۔ سات عشروں سے مسیحا کی تلاش میں جمہوری صحراوٴں میں بھٹکتی قوم کے درد کا کوئی درما نہ آبلہ پائی کا کوئی علاج۔

ایسا نہیں کہ قوم کی جستجو میں کوئی کجی رہ گئی ہو۔ بھٹو سے نوازشریف تک ہر کسی کو آزمایا مگر کوئی راس نہ آیا۔ شاید ربِ لم یزل کو ابھی اور امتحاں مقصود ہے۔ یہ بھی ممکن کہ جس عہد کے ساتھ ہم نے کھیتوں، کھلیانوں، جنگلوں، پہاڑوں، دریاوٴں، میدانوں، وادیوں، مرغزاروں اور سبزہ زاروں سے مزین یہ زمین کا ٹکڑا حاصل کیا، ہم اُسے نبھا نہ سکے ہوں،اِسی لیے گرفتارِبَلا اورابتلاء میں مبتلاء۔

(جاری ہے)


اکتوبر 2011ء کی شام ایک نعرہٴ مستانہ کانوں میں رَس گھول گیا۔ اُس کی ایک للکار سے دھرتی تھرا اُٹھی اور عشروں سے ترستی قوم نے یہ جانا کہ ناممکن کو ممکن کر دینے والا مسیحا آگیا۔ تھا یقیں کہ بلا خیز سونامی سارا گند بہا لے جائے گا۔ اِسی لیے وہ جہاں بھی گیا قوم نے دیدہ ودل فرشِ راہ کیے۔ آج عنانِ اقتدار اُس کے ہاتھ میں ہے مگر قوم پہلے سے کہیں زیادہ مایوس اور اذہان وقلوب سفینہٴ ناممکنات کی طغیانیوں کی زَد میں۔

وجہ شاید یہ کہ قوم نے جسے کھرا سمجھا وہ زَرِ کم عیار نکلا۔ وقت کی اُڑتی دھول نے ثابت کیا کہ وہ قوم کے در د سے ناآشنا صرف کرسی کی نحبت میں گرفتار ہے۔ اِسی لیے تو اُس نے وارثانِ طرہٴ کلاہ کو یہ کہتے ہوئے سینے سے لگا لیاکہ اُسے الیکٹیبلز درکار۔ کہتے ہیں ”آزمودہ را آزمودن جہل است“ لیکن اُس نے آزمودہ کو آزمایا اور قوم کو یہ دن دکھایا۔

جو اشرافیہ سات عشروں تک قومی درد سے دور رہی وہ بھلا اُس کی قیادت میں کیسے سدھر سکتی تھی۔ اپنی ذات کے گنبد میں گم چڑھتے سورج کے پجاریوں سے خیر کی توقع عبث۔ یہ وہی جیتنے والے گھوڑے جو کبھی نوازشریف کے تھان پر نظر آئے تو کبھی آصف زرداری کے کھونٹے سے بندھے پائے گئے۔ کبھی پرویزمشرف کی قدم بوسی کے لیے ایستادہ تو کبھی چودھریوں کی غلامی پر آمادہ۔

خاں کا پہلا دعویٰ آسمان سے فرشتے لانے کا تھا اور آخری بیان یہ کہ ”فرشتے کہاں سے لاوٴں، اِنہی پر گزارا کرنا ہوگا“۔ اُن دنوں وہ یہی کہتے تھے کہ اگر حاکم ایماندار ہوتو عمالِ سلطنت خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ پچھلی حکومتوں کے حاکم چور تھے اِسی لیے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا۔ اب سوال یہ کہ حاکم وہ خود ہیں اور بین الاقوامی سرویز کے مطابق کرپشن پہلے سے بڑھ چکی، اب چور کون؟۔


جنہوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر کسی ساعتِ نازک میں اُس کی آواز پر لبّیک کہا، اب وہ بھی حیران، پریشان اور پشیمان کہ فصیلِ قصر اتنی بلند جہاں عامی تو کجا خود اُن کی پکار بھی صدا بصحرا۔ اُس کی اپنی سیاسی جماعت کے رَہنماوٴں کا گلہ کہ وہ کسی کو شرفِ ملاقات نہیں بخشتا سوائے ”امپورٹڈ“ مشیروں اور معاونین کے جو ہمہ وقت اُس کے گرد گھیرا تنگ کیے رکھتے ہیں۔

اِن تین سالوں میں قوم کی حالت یہ کہ حالات کے جبر میں ڈھل کر زندگی کسی مفلس کی قبا جس میں اہلِ زَر اب بھی درد کی پیوند کاری میں مگن، اِس کے باوجود گلہ یہ کہ ”قوم میں صبر نہیں“۔ قوم میں صبر تو بہرحال اب بھی ہے جو اُسے بھگت رہی ہے وگرنہ حالات تو اُس موڑ پر پہنچ چکے جہاں انقلاب آتا ہے ۔۔۔۔ خونی انقلاب۔
اُس کی ضد، انا اور نرگسیت تو پہلے ہی زباں زَدِعام تھی، عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد کج فکری بھی عیاں ہوگئی ۔

فرمایا کہ اگر مودی الیکشن جیت گیا تو کشمیر کا مسلٴہ حل ہو جائے گا۔ 22 جولائی 2019ء کو وائٹ ہاوٴس میں ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلٴہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ ٹرمپ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ نریندر مودی کی جانب سے اُنہیں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے (بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اِن ریمارکس کے کچھ ہی دیر بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کی طرف سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی)۔

ٹرمپ کی ثالثی کی اِس پیشکش پر وزیرِاعظم خوشی سے اتنے نہال ہوئے کہ اُنہوں نے وطن لوٹتے ہی کہا کہ اُنہیں یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔ اِس ملاقات کے محض دو ہفتے بعد 5 اگست 2019ء کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کو ضم کر لیا۔ اِن آرٹیکلز کے خاتمے پر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کوئی ایک مذمتی بیان بھی سامنے نہیں آیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا وزیرِاعظم کے خیال میں نریندر مودی کی جیت پر مسلٴہ کشمیر کا یہی حل متوقع تھا؟۔ اب وزیرِاعظم صاحب آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا آرٹیکل 370 کی بحالی ہی مسلٴہ کشمیر کا حل ہے؟۔ کیا وزیرِاعظم صاحب اِس آرٹیکل کی بحالی کے بعد ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیں گے؟۔ اُنہوں نے امریکی ٹی وی کے صحافی جوناتھن سوان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے شروع ہی سے مخالف ہیں اور اگر مسلہٴ کشمیر حل ہو جائے تو ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔

وزیرِاعظم شاید نہیں جانتے کہ کتنی بین الاقوامی معاشی پابندیوں سے گزر کر پاکستان نے ایٹم بم بنایا؟۔ جب بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو اُس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ”گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے“۔ اُس وقت کے امریکی وزیرِخارجہ ہنری کسنجر نے اُنہیں نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی دی لیکن پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رہا۔

پھر جب بھارت نے 11 اور 13 مئی کو پانچ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اشتعال انگیز بیان دینا شروع کیے تو پاکستان نے 28 مئی کو چاغی کے پہاڑوں میں تین بجکر سولہ منٹ پر چھ ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو مُنہ توڑ جواب دے دیا۔تب سے اب تک اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کو پاکستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ جوہری ہتھیار پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے ضامن ہیں، اُنہیں صرف مسلٴہ کشمیر سے نتھی کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔


پسِ تحریر : ۔وزیرِاعظم کوزعم کہ زورآوروں کا ہاتھ اُن کی پشت پر مگر وہ شاید ذوالفقارعلی بھٹو کا انجام بھول چکے جنہوں نے کہا تھا ”میں کمزور ہوں مگر یہ کرسی کمزور نہیں“۔ پھر وہی کرسی اُنہیں پھانسی گھاٹ تک لے گئی۔ وزیرِاعظم کو یاد رکھنا چاہیے کہ وقتی سہاروں کے متلاشی ہمیشہ ٹھوکر ہی کھاتے ہیں۔ حقیقی رَہنما وہی جو دلوں کو مسخر کرے نہ کہ وہ جو وقتی سہارے تلاش کرے۔

دلوں کی تسخیر تبھی ممکن جب رَہنما ”نیابت“ کا حق ادا کرے اور پُرسش کا خوف دامن گیر ہو۔ فرمانِ ربی ہے ”وہی ہے جس نے تمہیں خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے عطا کیے تاکہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں تمہاری آزمائش کرے بیشک تمہارا رَب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور دَرگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی“ (سورة الانعام آیت 165)۔

حضورِاکرم ﷺ کا فرمان ہے ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے جس سے روزِ قیامت اُس کی بھیڑوں کا حساب ضرور لیا جائے گا“۔ اِس آیتِ مبارکہ اور حدیثِ نبویﷺ سے عیاں کہ جس کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا جتنا زیادہ بوجھ ہوگا، اُس کا حساب بھی اُتنا ہی سخت۔ کیا وزیرِاعظم نے کبھی سوچا کہ وہ روزِ قیامت اِس بھوکوں مرتی مجبورومقہور قوم کا حساب کیوں کر دے پائیں گے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :