
ساڈی واری آن دِیو
جمعرات 23 جنوری 2014

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہمارے محترم عمران خاں صاحب ڈیڑھ دو سال سے میاں برادران کو سمجھا سمجھا کے تھک گئے ہیں کہ ”میاں جی جان دیو ، ساڈی واری آن دیو“ لیکن کپتان صاحب کے درد و غم سے بے خبرمیاں نواز شریف ہمیشہ مُسکرا کے ٹال دیتے ہیں ۔جب سے وہ جلا وطنی کاٹ کے آئے ہیں ایسے ”کائیاں“ ہو گئے ہیں کہ ہمارے کپتان صاحب کی ”واری“ دور سے دور تر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔تحریکِ انصاف والے کہتے ہیں کہ میاں صاحب ”روندی“ مار رہے ہیں جو صریحاََ بے ایمانی اور ”گیم“ کے اصولوں کے منافی ہے ۔اصول تو یہی ہے کہ جب ایک ٹیم اپنی باری لے لیتی ہے تو دوسری کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہے ۔لیکن ہمارے میاں برادران تو کسی دوسرے کے لیے میدان خالی ہی نہیں چھوڑتے ۔تحریکِ انصاف والے یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں صاحبان نے تو گھر کی دو ٹیمیں بنا رکھی ہیں ، ایک پیپلز پارٹی اور دوسری نواز لیگ جو اپنی اپنی باری بھگتاتی رہتی ہیں اور سوائے ” ڈنڈے والوں “کے، جنہیں بزبانِ زرداری ”بِلّے“ کہا جاتا ہے ، کسی کو اپنے اندر گھُسنے ہی نہیں دیتیں ۔یہ بِلّے بھی خوب ہیں کہ جب جی چاہتا ہے دودھ پی کر مونچھوں کو زبان سے چاٹتے نکل جاتے ہیں جس سے قوم کو تو خیر کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ”دودھ “ اُس کے نصیب میں پہلے تھا نہ اب ہے لیکن ”واریاں“ لینے والے بہت چیں بچیں ہوتے ہیں ۔کیونکہ” واری“ اُن کی ہوتی ہے اورلے ”بِلّا“ جاتا ہے ۔ محترم آصف زرداری کہتے ہیں ”ایک بِلّا پھنس گیا ہے ، اب جانے نہ دینا“۔زرداری صاحب کا حکم سَر آنکھوں پرسوال مگر یہ ہے کہ جب یہی ”بِلّا “ایوانِ صدر میں طبلے سارنگی پر ”راگ ملہار“ الاپتا رہتا تھا، تب توزرداری صاحب نے اُسے کچھ نہیں کہا ۔شاید اُس کے ”پنجوں“ کا خوف ہویا پھر NRO کا احسان ۔ اب زرداری صاحب نواز لیگ کو ”وقفِ مصیبت“کرنے کے لیے وزیرِ اعظم صاحب کو ”ہَلا شیری“ دے رہے ہیں ۔مقصد یہ کہ پیپلز پارٹی کی”واری “ فَٹا فَٹ آ جائے لیکن اطلاعاََ عرض ہے کہ کاتبِ تقدیر نے بِلّے کے ناخن اکھاڑ پھینکے ہیں اور ویسے بھی وہ آجکل ”بیمار شمار“ رہتا ہے ۔سُنا ہے کہ وہ عارضہٴ قلب میں مبتلاء ہے لیکن لوگ نہیں مانتے ۔یہ دشمنانِ ملک و ملّت کہتے ہیں کہ اگر اُسے دل کی تکلیف ہوتی تو وہ AFIC سے انجیوگرافی کروا لیتا لیکن اُس نے انجیوگرافی سے صاف انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اندر سے ”کَکھ“ نہیں نکلنا۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ انجیوگرافی تو دل کی ہوتی ہے اور ہمارے مشرف صاحب کے ہاں تو دِل نامی کوئی شے موجود ہی نہیں پھر کِس کی انجیوگرافی اور کیسی انجیوگرافی ؟۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ معاملہ ”کَچی لَسّی“ کی طرح بڑھتا ہی چلا جائے گا اِس لیے وہ نواز لیگ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ”مٹی پاوٴ“ ۔برطانوی مصنف ایربیل اوک کہتا ہے ”وہاں ایک آمر کی لاش بڑی بے ہنگم اور کسمپرسی کی حالت میں پڑی تھی۔اُس کے تمام واقف کار اُس کا مضحکہ اُڑانے کے ساتھ ساتھ اُسے بُرے ناموں سے یاد کر رہے تھے ، لیکن میں رو رہا تھا کیونکہ میں اُسے پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا “۔ ہمارا بِلّابھی آجکل” علیل شلیل “ہے جبکہ قوم اُس کی صحت یابی کی منتظر ۔لیکن یہ انتظار ”مٹی پاوٴ“ کے لیے نہیں بلکہ ۔۔۔۔
بات دوسری طرف نکل گئی ، میں عرض کر رہی تھی کہ ہمارے کپتان صاحب کی ”واری “دورہوتی چلی جا رہی ہے جس کا ہم ”سونامیوں“ کو بہت دُکھ ہے اور ہمیں رہ رہ کر نواز لیگ پر غصّہ بھی آ رہا ہے ۔ویسے توہم جب جی چاہے اپنی سونامی کے زور پر اِس حکومت کو ”چلتا“ کر سکتے ہیں لیکن ہمیں ملک و قوم کی بہتری مقصود ہے ۔اگر نواز لیگ واقعی مُحبّ ِ وطن جماعت ہے تووہ اِس کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے خود ہی ”پاسے“ ہو جائے اور ”کُرسی“ ہمارے کپتان صاحب کے لیے چھوڑ دے ۔لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا کرے گی نہیں کیونکہ وہ محبِ وطن نہیں”امریکی غلام“ ہے اسی لیے ہمارے خاں صاحب نے فرمایا ہے ” حکمرانوں نے پاکستان کو امریکی غلامی میں پھنسا دیا ہے اور وہ امریکیوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں “۔ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کو صرف ہمارے ”دبنگ“ خاں صاحب ہی امریکی غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں اِس لیے عوام کو چاہیے کہ اپنی اوّلین فُرصت میں لیگیوں کے نیچے سے کُرسی کھینچ کراپنے گھر لے جانے کی بجائے خاں صاحب کے سپرد کر دیں ۔
محترم عمران خاں صاحب نے آج پھر فرمایا کہ میاں برادران چھ باریاں لے چکے اور اب ساتویں باری کے لیے اپنی اگلی نسل کو تیار کر رہے ہیں ۔بات تو سچ ہے مگر مخالفینِ تحریکِ انصاف کہتے ہیں کہ کپتان صاحب کوایک چھوٹے صوبے (خیبر پختونخواہ) میں بطور ”ٹیسٹ“ جو باری دی گئی اُس میں تو تا حال وہ چاروں شانے چِت ہیں۔اُنہوں نے تو 180 دنوں میں صوبے کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیا تھا لیکن بدلتی تقدیر کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔شاید اسی لیے وہ سب کچھ تیاگ کر اب طالبان سے مذاکرات کا ”بگل“ کچھ زیادہ ہی شدّت سے بجانے لگے ہیں ۔اُنہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر اُس سے مذاکرات نہیں ہوتے تو تحریکِ انصاف کو موقع دے ۔میاں نوازشریف صاحب یہ موقع تو دینے کو تیار ہیں لیکن مینڈیٹ کے بغیرخالی خولی موقع تو بیکار ہے اور مینڈیٹ تو تبھی مل سکتا ہے جب خاں صاحب وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوں ۔ ظاہر ہے کہ نواز لیگ یہ رِسک لے نہیں سکتی اِس لیے مذاکرات تو ”ٹائیں ٹائیں فِش“ ہی سمجھیں۔اب اگر مذاکرات نہیں تو پھر حکومت کوطوہاََ و کَرہاََ طالبان کے خلاف ایکشن ہی لینا پڑے گا ۔انتظار کیجئے ، اگلے دو چار روز میں اِس کا فیصلہ ہونے کو ہے ۔
شنید ہے کہ طالبان بھی اب ”واری“ لینے والوں کی قطار میں شامل ہو گئے ہیں لیکن موسموں کی ادا یہ بتاتی ہے کہ عمران خاں صاحب کی ”واری“ آئے گی نہ طالبان کی”شریعتی باری“۔ البتہ کسی ”نئے نویلے“ بِلّے کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کب دودھ پینے آ دھمکے ۔رہی ہماری بات تو ہم تو بادشاہ گَر ہیں ، ہم باریاں دیتے ہیں ، لیتے نہیں ۔شاید اِسی لیے بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ ”طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں “ ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.