
ہم منتظرہیں
ہفتہ 16 جنوری 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
فریال تالپورصاحبہ کواِس بات کاغصّہ کہ نیب نے ”بھولے بھالے“ منورتالپور پرہاتھ کیوں ڈالا اورنفیسہ شاہ ہمارے پچھلی صدی کے سندھ کے وزیرِاعلیٰ سیّدقائم علی شاہ کی ”سپُتری“ جنہیں اِس بات کاغصّہ کہ میڈیا”ایویں خواہ مخوا“ قائم علی شاہ کی کلاس لیتارہتا ہے۔
اِس ترمیم پر”کھُلی ڈُلی“ بحث ہوئی ۔پیپلزپارٹی کویقین تھاکہ وہ یہ ترمیم منظورکروانے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ اُسے نظرآ رہاتھاکہ پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن اراکین کی تعدادحکومتی اراکین سے زیادہ ہے۔ اُدھرسپیکر ایازصادق بھی پریشان کہ اگرووٹنگ کروادی گئی تویہ ترمیم کہیں منظورہی نہ ہوجائے لیکن اپوزیشن کے شورپر اُنہیں بادلِ نخواستہ ووٹنگ کروانی ہی پڑی ۔ جب نتیجہ آیاتو حکومتی ووٹ 70 اوراپوزیشن کے صرف 53 ، جس پراپوزیشن نے شورمچادیا کہ ووٹنگ دوبارہ کروائی جائے ۔اگرہمارے کپتان صاحب پارلیمنٹ میں موجودہوتے تواُنہوں نے تودھاندلی کاشور مچاتے ہوئے یہ کہہ کرپارلیمنٹ سے واک آوٹ ہی کرجانا تھاکہ ”ایسے دستورکو ،صبحِ بے نورکو ، میں نہیں مانتا“، لیکن پیپلزپارٹی نے محض دوبارہ ووٹنگ پرہی اکتفاکیا ۔دوبارہ ووٹنگ سے پہلے قیامت کاسماں، حکومتی اوراپوزیشن اراکین اپنے اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ کوئی کیفے میں چائے پیتاپکڑا گیاتوکوئی اپنے کمرے میں خوابِ استراحت کے مزے لیتاہوا ۔جب دوبارہ ووٹنگ ہوئی تواپوزیشن کے 60 اورحکومتی ووٹ 73 نکلے اوریوں وزیرِاعظم صاحب بال بال بچ گئے ۔ اگریہ ترمیم منظورہو جاتی تواسمبلی کے ہراجلاس کے پہلے بُدھ کووہی منظرہوتا جو ہم بچپن میں اپنے سکول میں دیکھاکرتے تھے ۔ہمیں اچھی طرح یادہے کہ جب ”اُستانی جی “ کسی ”اَوکھے “ سوال کاجواب دینے کے لیے ہمیں کھڑاکرتیں توہمارے ہاتھ پاوٴں کانپنا شروع ہو جاتے اورشدید سردی میں بھی ”تریلیاں“ آنے لگتیں۔ترمیم منظورہو جانے کی صورت میں پارلیمنٹ بھی سکول کاسا منظرپیش کرتی جہاں ڈنڈا ”اُستادِمحترم“سیّدخورشید شاہ کے ہاتھ میں ہوتا جو یقیناََ ہمارے وزیرِاعظم صاحب کو پھنسانے کے لیے ”پُٹھے پُٹھے“ سوال کرتے اورجواب دینے کے لیے ہمارے معصوم، بھولے بھالے اورمرنجاں مرنج وزیرِاعظم۔ اِس صورت میں وزیرِاعظم صاحب کوجیب سے ”پرچیاں“ نکالنے کی اجازت بھی نہ ہوتی اوراُنہیں سارے سوالوں کے ” مُنہ زبانی“ جوابات ہی دینے پڑتے جویقینا ایک مشکل کام ہوتااِس لیے شکرہے کہ یہ ترمیم منظور نہیں ہوئی۔یہ ساری ”شرارت“ محض اِس لیے ہوئی کہ پیپلزپارٹی اورنوازلیگ کا ” ہنی مون پیرید“ ختم اور ”مُک مکا“ کی سیاست دَم توڑچکی ۔پیپلئے کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم صاحب نے ”کھَبی“ دکھاکے ”سَجی“ ماری ہے ۔پہلے ایم کیوایم کوپیپلزپارٹی سے دورکرنے اوراُس کا ”مَکوٹھپنے“ کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزیرِاعلیٰ سندھ سیّدقائم علی شاہ کو”کپتان“ بنایااورجب ایم کیوایم ”بے کَس وبے بَس“ ہوگئی توپلٹ کے پیپلزپارٹی پرایسا دھاوا بولاکہ اُس کے سارے ”نگینے“ چُن لیے ۔اُدھر نوازلیگ کے” مزاحیہ فنکار“ مشاہداللہ خاں بار بار پیپلزپارٹی کوچھیڑتے رہتے ہیں۔شاید اُن کا مطمعٴ نظریہ ہوکہ
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.