
کوئی بتائے کہ ہم کھائیں کیا۔۔۔۔؟
ہفتہ 17 جون 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
آج جب وہ لمحے یاد آتے ہیں تو ہمیں مامتا کا ادراک ہوتا ہے اورماں کی یاد بھی بُری طرح ستانے لگتی ہے۔
وقت گزرتا گیا ،ہم بڑے ہوتے گئے ،رسوم بدلیں ،رواج بدلے اور بالآخر جدیدیت کی آڑ میں سب کچھ بدلتا چلا گیا ۔
یوں تو ہمیں الیکٹرانک میڈیا بہت پسند ہے اور ہم نیوز چینلز بڑے شوق سے دیکھتے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے الیکٹرانک میڈیانے جو وتیرہ اختیار کر رکھا ہے ، وہ تو ہمیں بھوکا مارنے کے مترادف ہے ۔ روز انہ تقریباََ ہر نیوز چینل اشیائے خورونوش کی کسی نہ کسی شے کو فوکس کرکے ایسے ایسے ”دل پذیر“مناظر دکھاتا ہے کہ اُبکائیاں آنا اظہر مِن الشمس ۔ مسلمان بنیادی طور پر گوشت خور ہوتا ہے اور ہمیں تو گوشت پسند ہی بہت ہے لیکن جب سے الیکٹرانک میڈیا کی بدولت ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمیں دَھڑادَھڑ کُتّوں اور گدھوں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ، تب سے ہم نے گوشت کھانے سے توبہ کر لی ہے ۔ ویسے تو پاکستان میں گدھوں کی کمی نہیں ،ایک ڈھونڈو ،ہزار ملتے ہیں لیکن آجکل اِن کی شامت آئی ہوئی ہے ۔گدھا لاکھ ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہے ،فنکار اُس کی کھال اتار کر رفوچکر ہو جاتے ہیں ۔ گوشت اُس کا قصاب کی دُکان پر بکرے کے گوشت کے بھاوٴ بکتا ہے اور یوں گدھوں کی قیمت کو بھی پَر لگ گئے ہیں ۔قصاب کی دُکان پر جا کر ہم افلاطونی غوروفکر کرنے لگتے ہیں کہ بکرے ، گدھے کی پہچان کیسے ہو ؟۔ ننگ دھڑنگ بڑا بکرا ہمیں گدھا لگتا ہے اور چھوٹا بکرا کتا کہ اب مسلمانوں کو کتے کا گوشت بھی ملتا ہے ۔گدھا تو خیر ہوتا ہی ”گدھا“ ہے لیکن کتا تو وفادار جانور ہے ،اِس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ؟۔ویسے کئی کتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مالک پر ہی بھونکنے لگتے ہیں ۔ایسے کتوں کو ”لوٹا کتا “ بھی کہا جاتا ہے جِن کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی ۔ اِن کو تو فقط ہڈی چاہیے ،خواہ وہ کسی گھر سے ملے ،کسی دَر سے ملے ۔قصّہ مختصر یہ کہ اب ہمیں گوشت سے نفرت سی ہو چلی ہے ۔برائلر ہمیں ویسے ہی پسند نہیں اور دیسی مرغ نایاب ۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں مُردہ مرغیاں یوں پکائی جاتی ہیں جیسے یہ آسماں سے ہی حلال کرکے زمیں پر بھیجی گئی ہوں ۔۔۔۔۔ کوئی بتائے کہ اب ہم کھائیں کیا ۔
پچھلے دنوں معدے کی تکلیف کی وجہ سے ہم نے ایک ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا ۔اُنہوں نے ہمیں نمک ،مرچ سے پرہیز کرتے ہوئے دودھ اور بسکٹ کھانے کا مشورہ دیا ۔ ہم نے بصد ادب کہا کہ پاکستان میں تو خالص دودھ بقدرِ اشک ِ بلبل بھی دستیاب نہیں البتہ یوریا کھاد سے بنایا گیا دودھ ”سَرِعام“ ہے۔ یہ دودھ جب معدے میں پہنچتا ہے تو یوریا کے زیرِ اثر معدے کی ساری جڑی بوٹیاں لہلہانے لگتی ہیں۔اب آپ ہی بتائیں کہ ہم خالص دودھ لائیں کہاں سے؟۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ”یہ میرا مسٴلہ نہیں“۔ ہم پریشانی کے عالم میں دودھ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ ہم نے بند ڈبے کا دودھ استعمال کرنے کے بارے میں بھی سوچا لیکن الیکٹرانک میڈیا پر اِس کی بھی بہت سی کہانیاں آ چکی تھیں اِس لیے اِس سے توبہ کر لی ۔بسکٹوں کا تو کوئی مسٴلہ نہیں تھا ۔ یہ تو ہر چھوٹے بڑے سٹور پر دستیاب ہیں لیکن دودھ کا مسٴلہ فیثاغورث لگا ۔بعد از خرابیٴ بسیار ہم منتوں ،ترلوں اور سفارشوں سے دو لِٹر خالص دودھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔بڑے اہتمام کے ساتھ ہم نے گرماگرم دودھ سامنے رکھ کے بسکٹ کا ڈبہ کھولا تو ایک نیوز چینل پر بریکنگ نیوزآنے لگی ۔ خبر یہ تھی کہ انڈوں سے پاوٴڈر بنانے والی فیکٹری جو ساری بسکٹ اور خورونوش کی دیگر فیکٹریوں کو انڈوں کا پاوٴڈر سپلائی کرتی ہے ،اُس کے سارے ہی انڈے نہ صرف گندے تھے بلکہ کئی انڈوں سے تو چوزے بھی نکلے ہوئے تھے ۔اقبال نے کہا تھا
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
بات اگر صرف گندے انڈوں تک ہی محدود رہتی تو ہم کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے لیکن اِن انڈوں کے پاوٴڈر سے تو بیکری کی ہر شے تیار ہوتی ہے ،گویا اب بیکری سے تیار کردہ اشیاء کا بھی بائیکاٹ ۔ہم نے تین دنوں تک فروٹ کا بائیکاٹ کر کے بھی دیکھ لیا جس کا ”کَکھ“ اثر نہ ہوا ۔اگر بازاری فروٹ چاٹ کی طرف رجوع کریں توآمدہ اطلاعات کے مطابق تمام گلا سڑا فروٹ بازاری چاٹ ہی میں تو استعمال ہوتا ہے ۔ہوٹلوں کا کھانا ہم کھا نہیں سکتے کہ ہمارا پیارا الیکٹرانک میڈیا ہوٹلوں کے مطبخ خانوں (کچن) میں اٹھکیلیاں کرتے حشرات الارض دکھا چکا ہے ۔مشروبات میں خطرناک کیمیکلز کا دھڑا دھڑ استعمال ہو رہا ہے ۔اُنہیں پی کر اگر بیمار پڑ جائیے تو ادویات جعلی اور ایکسپائرڈ ۔اب ایسی خوراک کھا کرصورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ
اور اگر مَر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.