نکل کر قانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری

اتوار 1 اکتوبر 2017

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

تاریخِ کُہن بہت سے واقعات و سانحات کو وقت کی اُڑتی دھول میں گُم کر دیتی ہے لیکن سانحہ ٴ کربلا کو صدیوں کی دھول بھی چھپانے سے قاصر رہی۔ یہ اعجاز ہے خانوادہٴ رسول ﷺ کا کہ ”غمِ حسین“ آج بھی تازہ ہے اور دھرتی حسین کے خونِ ناحق کی خوشبو سے معطر۔ یہ معرکہٴ حق وباطل دنیا کو درس دے گیا کہ جیت بہرحال حق ہی کی ہوتی ہے کیونکہ ہاتفِ غیبی نے تو روزِ ازل ہی کہہ دیا ۔

۔۔ جاء الحقُ وَ زَ ھَقَ البَاطِلُ اِنَّ ا لبَاطِلَ کانَ زَ ھُوقا (حق آگیا اور باطل مِٹ گیا ،تحقیق کہ باطل کو مٹنا ہی تھا)۔ اصولوں پر ڈٹ جانے اور اپنی جان تک کی پرواہ بھی نہ کرنے والے عظیم انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ حضرت امام حسین عظمتوں کی ایسی عظیم ترین داستان رقم کر گئے ،جسے تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔

(جاری ہے)

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشادِ رَبی ہے ”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں ،تُم اُنہیں مُردہ مت خیال کرو ،بلکہ وہ اپنے رَب کے پاس زندہ ہیں اور اُنہیں رزق بھی عطا کیا جاتا ہے“ (سورة آل عمران)۔


ایک شہید کی فضیلت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ روزِقیامت وہ ربّ ِ کائنات کے خاص بندوں میں شمار ہوگا، ایسے بندے جو اللہ تعالےٰ کے خصوصی انعام واکرام کے مستحق قرار پائیں گے۔ ارشادِ باری تعالےٰ ہے ”جو کوئی اللہ تعالےٰ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتا ہے ،پس وہ (روزِقیامت) اُن لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالےٰ نے انعام فرمایا ہے ،جو کہ انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور صالحین ہیں اور یہ کتنے بہترین ساتھی ہیں“ (سورة النساء)۔

میرے آقاﷺ کی بھی سب سے بڑی تمنا شہادت ہی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا”قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے ،میری آرزو اور تمنا یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاوٴں، پھر زندہ کیا جاوٴں، پھرشہیدکیا جاوٴں، پھر زندہ کیا جاوٴں، پھرشہیدکیا جاوٴں، پھر زندہ کیا جاوٴں اور پھر شہید کیا جاوٴں“(صحیح بخاری) ۔

۔۔۔ حضرت انس بِن مالک  سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ”جو بھی شخص جنت میں داخل ہوتا ہے ،وہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا کی طرف لوٹ جائے خواہ اُسے دنیا کی ہر چیز دے دی جائے مگر شہید تمنا کرتا ہے کہ لوٹ جائے اور دَس مرتبہ قتل کیا جائے“ (صحیح بخاری ،مسلم)۔ وقتِ رحلت حضرت خالد بِن ولید کی آنکھیں آنسووٴں سے تَر ہو گئیں۔ مقربین نے پوچھا ”کیا موت سے ڈر لگتا ہے“۔

آپ نے فرمایا ”نہیں ! میں تو اِس لیے رو رہا ہوں کہ میں نے شوقِ شہادت میں دشمن کی صفوں میں گھُس گھُس کر حملے کیے لیکن شہادت نصیب میں نہیں تھی“۔
شہیدِ کربلا حضرت امام حسین کا مقام ومرتبہ اِس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کہ حضورِ اکرمﷺنے تو حضرت امام حسن اور حسین کو ”جوانانِ جنت کے سردار“ قرار دیا ہے۔ ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا ”جو یہ چاہے کہ جوانانِ جنت کے سردار کو دیکھے، وہ حسین ابنِ علی کو دیکھ لے“ ۔

یہ بھی آپﷺ ہی کا فرمان ہے ”جس نے اِن دونوں( حسنین)سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اِن دونوں سے دشمنی کی ،اُس نے مجھ سے دشمنی کی“۔ اِس لیے بِلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ یزیدلعین ، دشمنِ دیں تھا اور اُس کے لیے کلمہٴ خیر کہنے والا اُس لعین کا ساتھی۔ معرکہٴ کربلا نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ
شاہ است حسین ، پادشاہ است حسین
دیں است حسین دیں پناہ است حسین
سَرداد ، نہ داد دست دَر دَستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
یہی وہ فلسفہٴ دیں ہے جس کو اجاگر کرنے کے لیے خانوادہٴ رسولﷺ نے کربلا کی ریت کو اپنے پاکیزہ خون سے سرخ کر دیا۔

یہی وہ فلسفہٴ دیں ہے جس کے مطابق ظالم وجابر حکمران کے سامنے کلمہٴ حق کہنا ہی بہترین جہاد ہے اور اِس جہاد کی بنیاد حسین ابنِ علی نے میدانِ کربلا میں رکھ کر یہ درس دیا کہ ظالم و جابر کے سامنے ڈَٹ جاوٴ خواہ تم تعداد میں کتنے ہی قلیل کیوں نہ ہو۔
ہمارے معاشرے میں یہ رسم چل نکلی ہے کہ ہم اپنے شہداء کے لیے تقاریب بھی منعقد کرتے ہیں اور اُن کی برسیاں بھی مناتے ہیں لیکن اُس مقصد کو کبھی مدِنظر نہیں رکھتے جس کی خاطر شہداء نے اپنی جانیں نثار کیں۔

شہادتِ حسین کا تقاضہ یہ تو نہیں کہ ہم محرم کے ایام میں اپنے اوپر سوگ طاری کر لیں اور یومِ عاشور پر آنسو بہا کر یہ سمجھیں کہ ہم نے غمِ حسین کا حق ادا کر دیا۔خونِ حسین کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہر دَور میں کربلا سجتی رہے اور جابروں کے سامنے کلہٴ حق کہا جاتا رہے لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ ہم نے حبِ حسین ابنِ علی کو بھی تقسیم کرکے رکھ دیا۔

اہلِ تشیع یہ سمجھتے ہیں کہ حبِ حسین ابنِ علی سے صرف وہی سرشار ہیں، غمِ حسین کے صرف وہی اجارہ دار ہیں اور سانحہٴ کربلا کی یاد کے تقاضے صرف وہی پورے کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ کون بدبخت ہے جو اُس ہستی سے محبت نہ کرتا ہو جسے رسول اللہﷺ نے وقتِ ولادت اپنے دستِِ مبارک سے شہد چٹایا ہو۔ آپ کے دَہن کو اپنی زبانِ مبارک سے تَر کیا ہواور حسین نام تجویز کیا ہو۔

کون ہے جو اُس حسین سے بغض رکھنے کے باوجود مسلمان کہلاے کا حق دار ہو جس نے آپﷺ کے دوشِ مبارک پہ سفر کیا ہو اور جس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا ہو”حسین  مجھ سے ہے اور میں حسین سے، یااللہ جو حسین کومحبوب رکھے، تُو اُسے محبوب رکھ“۔ اِس لیے بِلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ”ہمارے ہیں حسین “۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے دین کو فرقوں میں بانٹ کر ”خونِ حسین“ کی اصل روح کو بھی فراموش کر دیا ہے اور اُس نظریے کی حفاظت کو بھول کر جس کی خاطر حسین نے جان دی، باہم گُتھم گُتھا ہو چکے ہیں۔

شیعہ سُنّی فساد کا ہی سہارا لے کر دہشت گرد ایامِ محرم میں خودکُش حملے اور بم دھماکے کرتے ہیں۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ تقریبات ”یومِ حسین کی ہوں اورپورے ملک میں موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی لگا دی جائے ،موبائل فون سروس بند کر دی جائے اورصرف پنجاب میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ اہل کاروں کو تازیے کے جلوسوں کی حفاظت پر مامور کر دیا جائے ۔

لیکن یہ حکومت کی مجبوری ہے کہ اِنہی ایام میں تو شَرپسندی کا خطرہ ہوتا ہے اور شرپسند بھی کون؟ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ اگر ہم نے اِس معرکہٴ حق وباطل کو اُس کی اصل روح کے مطابق یاد کرنا ہے تو پھر ہمارے علماء کو تفرقے بازی کو ختم کرکے یک جان ہو کر باہر نکلنا ہوگا تاکہ اُس مقصد کے حصول کی راہ ہموار ہو سکے جس کے لیے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا گیا۔ یہ مقصد تفرقے بازی نہیں ،صرف اور صرف ”رَسمِ شبّیری“ ادا کرکے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :