
نکل کر قانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری
اتوار 1 اکتوبر 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشادِ رَبی ہے ”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں ،تُم اُنہیں مُردہ مت خیال کرو ،بلکہ وہ اپنے رَب کے پاس زندہ ہیں اور اُنہیں رزق بھی عطا کیا جاتا ہے“ (سورة آل عمران)۔
ایک شہید کی فضیلت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ روزِقیامت وہ ربّ ِ کائنات کے خاص بندوں میں شمار ہوگا، ایسے بندے جو اللہ تعالےٰ کے خصوصی انعام واکرام کے مستحق قرار پائیں گے۔ ارشادِ باری تعالےٰ ہے ”جو کوئی اللہ تعالےٰ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتا ہے ،پس وہ (روزِقیامت) اُن لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالےٰ نے انعام فرمایا ہے ،جو کہ انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور صالحین ہیں اور یہ کتنے بہترین ساتھی ہیں“ (سورة النساء)۔ میرے آقاﷺ کی بھی سب سے بڑی تمنا شہادت ہی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا”قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے ،میری آرزو اور تمنا یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاوٴں، پھر زندہ کیا جاوٴں، پھرشہیدکیا جاوٴں، پھر زندہ کیا جاوٴں، پھرشہیدکیا جاوٴں، پھر زندہ کیا جاوٴں اور پھر شہید کیا جاوٴں“(صحیح بخاری) ۔۔۔۔ حضرت انس بِن مالک سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ”جو بھی شخص جنت میں داخل ہوتا ہے ،وہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا کی طرف لوٹ جائے خواہ اُسے دنیا کی ہر چیز دے دی جائے مگر شہید تمنا کرتا ہے کہ لوٹ جائے اور دَس مرتبہ قتل کیا جائے“ (صحیح بخاری ،مسلم)۔ وقتِ رحلت حضرت خالد بِن ولید کی آنکھیں آنسووٴں سے تَر ہو گئیں۔ مقربین نے پوچھا ”کیا موت سے ڈر لگتا ہے“۔ آپ نے فرمایا ”نہیں ! میں تو اِس لیے رو رہا ہوں کہ میں نے شوقِ شہادت میں دشمن کی صفوں میں گھُس گھُس کر حملے کیے لیکن شہادت نصیب میں نہیں تھی“۔
شہیدِ کربلا حضرت امام حسین کا مقام ومرتبہ اِس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کہ حضورِ اکرمﷺنے تو حضرت امام حسن اور حسین کو ”جوانانِ جنت کے سردار“ قرار دیا ہے۔ ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا ”جو یہ چاہے کہ جوانانِ جنت کے سردار کو دیکھے، وہ حسین ابنِ علی کو دیکھ لے“ ۔یہ بھی آپﷺ ہی کا فرمان ہے ”جس نے اِن دونوں( حسنین)سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اِن دونوں سے دشمنی کی ،اُس نے مجھ سے دشمنی کی“۔ اِس لیے بِلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ یزیدلعین ، دشمنِ دیں تھا اور اُس کے لیے کلمہٴ خیر کہنے والا اُس لعین کا ساتھی۔ معرکہٴ کربلا نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ
دیں است حسین دیں پناہ است حسین
سَرداد ، نہ داد دست دَر دَستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
ہمارے معاشرے میں یہ رسم چل نکلی ہے کہ ہم اپنے شہداء کے لیے تقاریب بھی منعقد کرتے ہیں اور اُن کی برسیاں بھی مناتے ہیں لیکن اُس مقصد کو کبھی مدِنظر نہیں رکھتے جس کی خاطر شہداء نے اپنی جانیں نثار کیں۔ شہادتِ حسین کا تقاضہ یہ تو نہیں کہ ہم محرم کے ایام میں اپنے اوپر سوگ طاری کر لیں اور یومِ عاشور پر آنسو بہا کر یہ سمجھیں کہ ہم نے غمِ حسین کا حق ادا کر دیا۔خونِ حسین کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہر دَور میں کربلا سجتی رہے اور جابروں کے سامنے کلہٴ حق کہا جاتا رہے لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ ہم نے حبِ حسین ابنِ علی کو بھی تقسیم کرکے رکھ دیا۔ اہلِ تشیع یہ سمجھتے ہیں کہ حبِ حسین ابنِ علی سے صرف وہی سرشار ہیں، غمِ حسین کے صرف وہی اجارہ دار ہیں اور سانحہٴ کربلا کی یاد کے تقاضے صرف وہی پورے کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ کون بدبخت ہے جو اُس ہستی سے محبت نہ کرتا ہو جسے رسول اللہﷺ نے وقتِ ولادت اپنے دستِِ مبارک سے شہد چٹایا ہو۔ آپ کے دَہن کو اپنی زبانِ مبارک سے تَر کیا ہواور حسین نام تجویز کیا ہو۔ کون ہے جو اُس حسین سے بغض رکھنے کے باوجود مسلمان کہلاے کا حق دار ہو جس نے آپﷺ کے دوشِ مبارک پہ سفر کیا ہو اور جس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا ہو”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، یااللہ جو حسین کومحبوب رکھے، تُو اُسے محبوب رکھ“۔ اِس لیے بِلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ”ہمارے ہیں حسین “۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے دین کو فرقوں میں بانٹ کر ”خونِ حسین“ کی اصل روح کو بھی فراموش کر دیا ہے اور اُس نظریے کی حفاظت کو بھول کر جس کی خاطر حسین نے جان دی، باہم گُتھم گُتھا ہو چکے ہیں۔ شیعہ سُنّی فساد کا ہی سہارا لے کر دہشت گرد ایامِ محرم میں خودکُش حملے اور بم دھماکے کرتے ہیں۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ تقریبات ”یومِ حسین کی ہوں اورپورے ملک میں موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی لگا دی جائے ،موبائل فون سروس بند کر دی جائے اورصرف پنجاب میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ اہل کاروں کو تازیے کے جلوسوں کی حفاظت پر مامور کر دیا جائے ۔ لیکن یہ حکومت کی مجبوری ہے کہ اِنہی ایام میں تو شَرپسندی کا خطرہ ہوتا ہے اور شرپسند بھی کون؟ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ اگر ہم نے اِس معرکہٴ حق وباطل کو اُس کی اصل روح کے مطابق یاد کرنا ہے تو پھر ہمارے علماء کو تفرقے بازی کو ختم کرکے یک جان ہو کر باہر نکلنا ہوگا تاکہ اُس مقصد کے حصول کی راہ ہموار ہو سکے جس کے لیے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا گیا۔ یہ مقصد تفرقے بازی نہیں ،صرف اور صرف ”رَسمِ شبّیری“ ادا کرکے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.